ماہرِ نفسیات کی ڈائری۔۔۔ خطوط کی مسیحائی


خطوط، جن کو ایک زمانے تک صرف ذاتی نوعیت کی تحریر سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا تھا، آہستہ آہستہ ماہرینِ نفسیات کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا عرفان حاصل ہو رہا ہے کہ خطوط وہ کھڑکیاں ہیں جن سے ہم کسی شخص کی روح میں جھانک سکتے ہیں اور اس کی شخصیت اور زندگی کے ان گوشوں سے واقف ہو سکتے ہیں جو عام حالات میں ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔

اگرچہ مغرب میں نفسیاتی علاج کی باقاعدہ ابتدا کو ایک صدی ہونے کو آئی ہے لیکن نفسیاتی علاج میں مکتوب نگاری کو بہت کم اہمیت دی گئی ہے۔ سگمنڈ فرائڈ سے لے کر آج کے ماہرینِ نفسیات تک نفسیاتی علاج کا دارومدار زبانی انٹرویو پر رہا ہے۔ میری نگاہ میں نفسیاتی علاج ایک ایسا سفر ہے جس میں مریض اور ماہرِ نفسیات ایک ایسے راستے پر چل نکلتے ہیں جس کا مقصد مریض کی زندگی کی اگلی منزل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ مریض جب ماہرِ نفسیات کے پاس آتا ہے تو وہ ایسے مسائل کا شکار ہوتا ہے جن سے یا تو وہ خود یا اس کے رشتہ دار، دوست یا رفقائے کار پریشان اور مضطرب ہوتے ہیں۔ مریض اپنے طور پر وہ تمام اقدامات کر چکا ہوتا ہے جن سے اسے مسائل کو حل کرنے کی امید ہوتی ہے لیکن ناکام رہتا ہے۔ مریض اس بات کی امید لئے ہوئے ہوتا ہے کہ ماہرِ نفسیات اسے ایسی منزل تک پہنچنے میں مدد کرے گا جہاں مریض

۔۔۔ اپنی ذات کو قبول کر سکے

۔۔۔ اپنے حالات کی بصیرت حاصل کر سکے

۔۔۔ اپنی طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا سکے اور

۔۔۔ اپنی زندگی کے اہم لوگوں سے مل جل کر رہنے کا طریقہ سیکھ سکے۔

چونکہ نفسیاتی علاج سے لوگوں کی زندگیاں مثبت انداز میں بدل جانے کے امکانات ہوتے ہیں اس لیے اس کے لیے ہر وہ طریقہ اہم ہے جو اس تبدیلی میں ممد ثابت ہو۔ چونکہ میں شروع سے ہی زندگی، ادب اور نفسیاتی علاج میں نئے راستوں اور منزلوں کا متلاشی رہا ہوں اس لیے میں نے ایک عرصے سے مکتوب نگاری کو اپنے کلینک میں سائیکو تھیریپی کا ایک حصہ بنا رکھا ہے۔ میں پہلے انٹرویو کے بعد ہی اپنے مریضوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مجھے ایک خط لکھیں جس میں وہ مجھے اپنی زندگی کی کہانی سنائیں، اپنے مسائل کی نشاندہی کریں اور ان اقدامات کے بارے میں لکھیں جو وہ اس وقت تک مسائل کو حل کرنے کے لیے اٹھا چکے ہیں۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ ایسے خط سے مجھے انہیں سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔ پہلی ملاقات کے بعد جب علاج شروع ہو جاتا ہے تو میں انہیں ہر مہینے خط لکھنے کو کہتا ہوں تا کہ ان کی شفایابی اور پراگرس کا اندازہ ہو سکے اور آخر میں جب علاج ختم ہو جاتا ہے تو میں انہیں اس سفر کے بارے میں جو ہم نے طے کیا ہے خط لکھنے کو کہتا ہوں تا کہ ہم دونوں کے پاس اس اہم تجربے کا تحریری ثبوت رہے۔ بعض دفعہ میں خود بھی اپنے مریضوں کو خط لکھتا ہوں تا کہ وہ میرے خیالات اور مشوروں کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر سکیں۔ خطوط کے ایسے تبادلے سے نفسیاتی علاج میں ایک جمہوری فضا پیدا ہوتی ہے جس سے ماہرِ نفسیات اور مریض ایک سنجیدہ مکالمہ کر سکتے ہیں۔

جب میں نے نفسیاتی علاج میں مکتوب نگاری کا آغاز کیا تو اس وقت میں دنیا میں کسی اور ماہرِ نفسیات سے واقف نہ تھا جس نے یہ طریقہِ علاج اپنا رکھا ہے لیکن جب میں نے اس موضوع پر تحقیق کی تو مجھے اندازہ ہوا کہ دنیا میں چند اور بھی ماہرِ نفسیات ایسے ہیں جو اس غیر روایتی طریقۃ علاج کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نام قابلِ ذکر ہیں۔

امریکہ میں ڈاکٹر لوگینو لیباٹ

کینیڈا میں ڈاکٹر کارل ٹام اور

ڈنمارک میں ڈاکٹر ٹرپارگر راسموسن

وہ ماہرینِ نفسیات ہیں جنہوں نے مکتوب نگاری کو نفسیاتی علاج کا حصہ بنایا ہے۔ وہ سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ خطوط کے تبادلے کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔

ا۔ مریض کو اپنے ماہرِ نفسیات سے تبادلہِ خیال کے زیادہ مواقع ملتے ہیں۔ بعض مریض انٹرویو کے دوران اپنے جذبات، احساسات اور تجربات کا پوری طرح اظہار نہیں کر پاتے لیکن اپنے فارغ وقت میں، جب انہیں تنہائی اور یکسوئی ملتی ہے، وہ اپنے مافی ا لضمیر کو بہتر طور پر بیان کر سکتے ہیں۔

۲۔ خطوط لکھنے سے مریض اپنے علاج اور اپنی منزل کی تلاش میں زیادہ ذمہ داری لیتا ہے اور ایسے طریقوں سے سوچتا ہے جو خطوط نہ لکھنے کی صورت ممکن نہ ہوتا۔

۳۔ چونکہ خطوط تحریری مکالمہ ہوتے ہیں اس لیے ان میں ابلاغ کے مسائل کی کمی کے امکانات ہوتے ہیں کیونکہ جانبین ان خطوط کو بار بار پڑھ سکتے ہیں اور غلط فہمی کا ازالہ کر سکتے ہیں۔

۴۔ خطوط کا ریکارڈ رکھنے سے مریض اپنی ترقی سے باخبر رہتا ہے جس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

مکتوب نگاری بھی، کسی اور طریقہِ علاج کی طرح، ہر مریض کے لیے نہیں ہے۔ ہر ماہرِ نفسیات کو ہر مریض کی تشخیص اور طریقہِ علاج تجویز کرتے وقت اس مریض کے مخصوص حالات کو مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔ مکتوب نگاری کا فائدہ یہ ہے کہ روایتی طریقہِ علاج کے ساتھ ساتھ یہ ایک طریقہ ایسا ہے جس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ جن ماہرینِ نفسیات نے اسے اپنایا ہے انہوں نے اسے بہت سودمند پایا ہے۔

جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ ہم نفسیاتی علاج میں مکتوب نگاری کو تین مراحل میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

پہلا مرحہ۔ جب مریض اپنی کہانی بیان کرتا ہے۔ ایسا خط ہمیں مریض کے مسائل کی تشخیص میں مدد کرتا ہے

دوسرا مرحلہ۔ جس میں ہم مریض کی ترقی کا اندازہ لگا سکتے ہیں

تیسرا مرحلہ۔ جب سفر اپنے اختتام پر پہنچتا ہے اور ہمیں مریض کے اس تجربے سے گزرنے کا اندازہ ہوتا ہے۔

میں ان تینوں مراحل کی مریضوں کے خطوط سے ایک ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں تا کہ میرے خیالات کی وضاحت ہو سکے۔

میری ایک مریضہ جس کی عمر پچیس برس تھی، اکیلی رہتی تھی۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ تھے۔ وہ ایک مدت سے ڈیپریشن کا شکار تھی۔ اس کی پریشانی کی ایک وجہ اس کے مردوں سے تعلقات تھے۔ اپنے بوائے فرینڈ برائن سے محبت کے بارے میں اپنے جذبات کا اس نے اپنے ایک خط میں ان الفاظ میں اظہار کیا۔

’ میں کافی عرصے سے BRIAN کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ برائن میرا آخری بوائے فرینڈ تھا۔ جب ہمارے تعلقات ختم ہوئے تو میں اتنی زیادہ ڈیپریشن کا شکار ہوئی کہ مجھے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ میرے دل میں برائن کے بارے میں ملے جلے جذبات ہیں۔ کبھی میں اس کے قریب آنا چاہتی تھی اور کبھی اس سے دور جانا چاہتی تھی۔ اب میں محبت کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے محبت بیوقوفی کا دوسرا نام ہے۔

میں ایک عجیب تضاد کا شکار ہوں۔ کبھی محبت کے حق میں کبھی محبت کے خلاف۔ کبھی میں سوچتی ہوں کہ محبت ایک خوشگوار جذبہ ہے۔ اس کا اپنا حسن ہے اس کا اپنا کیف ہے۔ کبھی کبھار میں کسی کی بیوی بننے کا خواب دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ شادی شدہ زندگی کتنی خوشگوار ہو سکتی ہے اور پھر میں سوچتی ہوں کہ محبت ایک عذاب ہے۔ ایک زنجیر ہے ۔ ایک بیوقوفی ہے۔ محبت میں انسان کتنا کمزور محسوس کرتا ہے۔ اس کے دکھی ہونے کے کتنے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ انسان کی انا اور خود اعتمادی کے مجروح ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔۔۔ اور میں اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ میں تنہا سہی کسی کی باندی تو نہیں۔ صرف اپنی باندی ہوں،

اس ایک خط نے مریضہ کی شخصیت، سوچ اور رومانوی رشتوں کے بہت سے ایسے گوشوں کی نشاندہی کی ہے جن تک رسائی شروع کے انٹرویوز میں دشوار ہوتی ہے۔

ایک اور مریضہ جو ڈیپریشن کا شکار تھی جب نفسیاتی علاج سے روبصحت ہونے لگی تو اس نے اپنے جذبات کا اظہار اپنے خط میں اس طرح کیا

’جب میں درد کے تہہ خانے میں مقید ہو گئی، جب حالات کی تاریکی حد سے بڑھنے لگی اور امید کی ہر کرن بے نور ہو گئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مثبت اقدامات اٹھائوں گی۔ جب میں نے مدد کے لیے پکارا تو آپ کے کلینک نے میری صدا پر لبیک کہا۔

آپ نے جس ہمدردی اور خلوص کا مظاہرہ کیا ہے اس نے مجھے ہمت دی، حوصلہ دیا، زندہ رہنے کی آس بخشی اور مجھے خود کشی کے دہانے سے واپس بلا لیا۔ اب میری خوابوں میں نئے رنگ بھر رہے ہیں اور میرے من میں زندہ رہنے کی خواہش دوبارہ انگڑائی لینے لگی ہے۔ یہ سال ختم ہونے کو ہے لیکن میری زندگی کا نیا باب شروع ہو رہا ہے،

اس قسم کے خطوط سے مریض اور ماہرِ نفسیات دونوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔

ایک مریضہ کا جب نفسیاتی علاج ختم ہو گیا تو اس نے مندرجہ ذیل خط بھیجا جس میں اس نے اپنے نفسیاتی سفر کا تخلیقی اظہار کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں

’ایک چھوٹی سی پرانی کتاب ہوا کرتی تھی جو ایک لائبریری کی الماری کے ایک کونے میں پڑی رہتی تھی۔ اس کی حالت ناگفتہ بہہ تھی۔ اس کے بہت سے صفحات آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض پھٹ بھی چکے تھے۔ کتاب کے cover پر سیاہی کے داغ تھے اور مصنف کا نام پڑھنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ کوئی نیہیں جانتا تھا کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے۔ بعض اوقات لوگ اس کتاب میں دلچسپی لیتے تھے لیکن اس کا کور دیکھ کر، مصنف کا نام نہ پڑھ سکنے کی وجہ سے یا کتاب کی خستہ حالت دیکھ کر مایوس ہو جاتے تھے اور کتاب کو چھوڑ کر چل دیتے تھے۔

آخر ایک دن آپ لائبریری میں آئے۔ آپ نے کتاب کو اٹھایا، اسے الٹ پلٹ کر دیکھا، مصنف کا نام پڑھنا چاہا اور پھر آپ نے اس کتاب کو مزید جاننے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے بڑے صبر و تحمل سے ان دشواریوں کا حل تلاش کرنا شروع کیا جن سے باقی لوگ بد دل ہو چکے تھے۔ آپ کچھ پانی، کچھ سوئیاں اور دھاگے اور کچھ برش لائے۔ آپ نے ہر صفحے کی گوند اور سیاہی کو صاف کیا، دھویا ، پھر خشک کیا۔ آپ نے ہر صفحے کو اہمیت دی۔ جہاں جہاں سے الفاظ مٹ چکے تھے آپ نے خود لکھ دیے۔ آپ جب تک ایک صفحے کو پوری طرح پڑھنے کے لیے تیار نہ کر لیتے تھے اگلے صفحے پر نہ جاتے تھے۔ جب تمام صفحات تیار ہو گئے تو آپ نے انہیں ترتیب دی اور پھر انہیں آپس میں سی دیا۔ آپ نے اس کہانی کے ہر لفظ کو اہم سمجھا۔ آپ نے کہانی کی جزئیات میں بھی اتنی ہی دلچسپی کا اظہار کیا جتنا بڑے واقعات میں ۔ آپ نے پھر شروع سے آخر تک کہانی پڑھی اور اس کی اہمیت سے واقف ہوئے۔

اب جبکہ کہانی پایہِ تکمیل تک پہنچ چکی ہے اس کا آغاز بھی ہے اور انجام بھی۔ اب کتاب اس قابل ہے کہ اسے دوسرے لوگ بھی پڑھ سکیں۔ ،

نفسیاتی علاج کے لیے کتاب کا خوبصورت استعارہ اس سے پہلے میری نظر سے نہ گزرا تھا۔

ماہرینِ نفسیات کو اندازہ ہو رہا ہے کہ خطوط انسانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں اور ان کے اندازِ فکر اور طرزِ زندگی کو بدلنے میں ممد ثابت ہوتے ہیں۔ اس طرح ان میں ایک طرح کی مسیحائی پیدا ہو جاتی ہے جس سے مریضوں کو نئی امیدیں اور نئے خواب ملتے ہیں۔ ایسے خواب جنہیں وہ شرمندہِ تعبیر کر سکتے ہیں اور ایک پرسکون اور صحتمند زندگی گزار سکتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail