اپنی ذات سے عشق کی تحریک۔۔۔


سب کچھ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور بہت کچھ تبدیل ہونا باقی ہے۔ دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کیوں نہ ہم خود کو اس کا ایک دیہاتی تصور کریں۔ ہر شخص اپنی منشا کے مطابق زندگی گزارے۔ آسمان تلے ذندگی گزارنے والے کو اگر گھٹن کا حساس نہیں ہوتا اور ہر شخص اس کی نعمتوں سے اپنی محنت، ذہانت، صلاحیت اور نصیب کے لحاط سے فیضیاب ہو رہا ہو تو کسی کو حق نہیں کہ اس کے اندر غلامی کا احساس اجاگر کرے۔ یہ چھوٹی سی دنیا ہماری ہے۔ ہمارے گھر کی طرح ہے۔ اب جب کہ یہ دنیا سمٹ کر ہماری مٹھی میں آگئی ہے تب ہمیں ایسے خود ساختہ رہنماؤں سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے۔ نا کو ئی آقا ہے نہ کو ئی کسی کا غلام۔ البتّہ اختیار اور طاقت کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے اتحاد کیا جا سکتا ہے لیکن اپنی حیثیت اور طاقت کو سمجھتے ہوئے۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ اگر ہمارا نوکر ہمارے سوال کا جواب نہ دے تو ہم غصے سے پاگل ہو کر اسے تھپڑ جڑ دیتے ہیں، لیکن ہمارا باس ہمارے سوال کا جواب نہ دے تو کیا ہم اسے تھپڑ مار سکتے ہیں اور چلیں آپ نے ایسا کر بھی دیا تو نتائج کیا ہو ں گے۔ آپ کو ہر ایک سے کیسی لعن طعن سننی پڑے گی، نوکری سے الگ ہاتھ دھوئیں گے۔ ہمیں اپنی حیثیت میں رہ کر ہی قدم آگے بڑھانے ہوں گے۔ یہ ہی دانش مندی ہے ورنہ مسلے جانا ہے یا دیوار پہ چڑھنا ہے، چیونٹی کوئی ایک فیصلہ تو کر ہی سکتی ہے۔

ہم اس جگہ کو جہاں ہماری ماں نے ہمیں جنم دیا، اسے اس خوبصورت دنیا کا حصہ سمجھ کر اس کی خوبصورتی میں اضافہ کریں۔ بہادری سے جینا اور بات ہے اور بہادری سے مرنا اور بات، بہادری تو زندہ رہنے اور دوسروں کی زندگی کی خوشیوں کو بڑھاوا دینے ہی میں ہے۔

روتھ فاؤ کو پاکستان میں بس جا نے کیا ضرورت تھی، مادام ٹریسا ہندستان ہی میں کیوں رہ گئیں اور ایسی لاکھوں مثالیں ہیں کہ لوگ کسی اور ملک میں جا کر آباد ہو گئے اور اپنی ساری توانائیاں اسی دیس کے لوگوں کے لیے وقف کر دیں۔ کیوں کہ وہ ایک وسیع تناظر میں سوچتے ہیں وہ ساری دنیا کو اپنا سمجھتے ہیں ذندگی کو معنی دینا ہے تو اسے آزادی حاصل کرنے کے مطلب تک محدود نہ کریں۔ اپنی سوچ کو کائنات جیسا پھیلاؤ عطا کریں۔ صرف ظلم کے خاتمے اور مظلوم کے حق کے لیے کام کریں۔ دوسروں کے آزاد وطن کے نعروں کو شہ دینے والے خود اپنی مرضی سے آزاد وطن کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں کو اپنی صلاحیتوں سے مستفید کرنے کے بعد وہاں کی کمائی دولت کا حصہ آزادی کے متوالوں کے نام دان کرکے سمجھتے ہیں بڑا تیر ما ر لیا ہے تو انہیں یا د رکھنا چاہیے کہ آزادی حاصل کر بھی لی تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آزاد دیس میں کچھ لوگوں کو احساسِ محرومی کا کیڑا پھر نہیں کاٹے گا۔ اور کچھ لوگ آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے بچو ں سے نہیں کہیں گے جاؤ بیٹا اس ملک میں رہنا بہت مشکل ہے۔ ہمارا کیا ہے۔ ہم تو باقی عمر یہیں گزر دیں گے۔ تم جاؤ۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ چند لوگ کہیں کہ خدا نخواستہ میں پاکستان کی اور دگر آزادی کی تحریکوں کے خلاف کوئی بات کر رہی ہوں اور مجھے بیٹھے بٹھائے غداری کے اعزاز سے نواز دیا جا ئے۔ میں موجودہ دور کی ترجیحات کے تناظر میں بات کر رہی ہوں۔

اب وقت بدل گیا ہے۔ یہ دنیا ایک عالمی گاؤں ہے۔ ہمارا تصرف اس کے ہر حصے پر ہونا چاہیے یہ ساری دنیا ہما ری ملکیت ہے، اگر چہ اس احساس کو اجاگر کرنا اور اس کے چھوٹے بڑے حصوں کے رہنماؤں کو یہ باور کرانا بہت مشکل ہے۔ لیکن ہم اس اپنے پن کے احساس کے ساتھ دنیا کے ساتھ دوستی تو کر سکتے ہیں۔ نسل در نسل یہ دوستی اور دنیا سے محبت کا رشتہ مضبوط ہوتا چلا گیا تو نہ کوئی سرحد ہو گی اور نہ فوج۔ یہ شیخ چلّی کی بڑھک بھی ہو سکتی ہے اور کسی دیوانے کا خواب بھی مگر نظریات کی ابتدا بڑھک یا دیوانگی سے ہو بھی تو شعور کی آنکھ بہت کچھ دیکھ لیتی ہے۔

نظریے کوآگے بڑھانے کے لیے تحریک ضروری ہے۔ اس تحریک کا نام رکھیں ’سب سے پہلے زندگی‘۔ اس تحریک میں صرف خود کو شامل کریں۔ آپ خود اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ یہ تحریک اپنی ذات کے اندر چلائیں یہ تحریک آپ کو آپ سے جوڑ دے گی، آزادی حاصل کریں لیکن غفلت، جہالت اور نفرت سے۔ اس تحریک کے منشور میں اپنی ذات سے عشق ، دنیا سے لگاؤ، زندگی سے محبت، انسانیت کا احترام، سیکھنے کی جانب جھکاؤ، علم سے رغبت، پھولوں اور بچوں سے پیار کے نکات شامل کریں۔ یہی ہماری تاریخ کا قیمتی درس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).