کیا ہم شہری ذمہ داری سے بری الذمہ ہیں؟


من حیث القوم ہم اپنی تعلیم کو شفاف معاشرے کی تشکیل کے بجائے گند پھیلانے سے کب باز آجائیں؟
فیس بک، ٹویٹر، ویٹس اپ، انسٹا گرام اور اس قبیل کے بھانت بھانت کے سوشل میڈیا ٹولز کے ہوتے ہوئے بھی ہم اپنے خیالات اور دانشوری پبلک ٹوائلٹ اور دیواروں پر جھاڑنا ترک نہیں کرسکے، ستم بالائے ستم یہ کہ سوشل میڈیا ویب سائٹس کو بھی ہم نے پبلک ٹوائلٹ کی دیواروں کی مانند گندا کرنا شروع کردیا اور مجبوراً ہمارے ریاستی اداروں کو” سوشل میڈیا ایکٹ“ لاگو کرنا پڑا مگر مثل مشہور ہے کہ کتے کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی۔

دیگر قوانین کی طرح سوشل میڈیا قانون بھی ”منظوری“ کی لکیر سے آگے قدم نہیں رکھ سکا اور نفرت، فرقہ واریت، انتہاپسندی اور کے شعلے بدستور سوشل میڈیا پر بھڑک رہے ہیں۔ مگر اب تک ایک آدھ فیس بک صفحے کی بندش کے سوا عملی طور پر کچھ نہیں ہوا اور کسی کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا۔ مگر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں کہ اربوں روپے کسی منصوبے پر گنوا دینے کے بعد ہم عوام اپنے ہی مبارک ہاتھوں سے اسے نیست و نابود کرتے ہیں۔

جب بھی کسی سرکاری عمارت کے ٹوٹے ہوئے شیشے اور سٹریٹ لائٹس کے گرے ہوئے کھمبے دیکھتا ہوں تو ایک کرنل صاحب کی وہ بات یاد آتی ہے جو انہوں نے سوات کے کالم نویسوں کے ساتھ ایک نشست میں بیان کی تھی۔

کہتے ہیں ہمارے بچے سڑکوں اور گلیوں کو ذاتی کھیل کے میدان بناکر دن بھر سٹریٹ لائٹس کو توڑتے رہتے ہیں اور شام کو تاریکی میں خود کسی پتھر سے ٹکرا کر گرتے ہیں تو بجائے اپنے بچوں کو منع کرانے وزیر اعظم سے لے کر وزیر اور مشیر پر گالیوں کی بوچھاڑ کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اس لئے کالم نویسوں کو قلم کے ذریعے عوامی شعور کو اجاگر کرنے کی بھاری ذمہ داری سمجھتا ہوں۔

ٹھیک اسی طرح ایک ارب سے زائد رقم سے ابھی کالام بیوٹی فیکیشن پروجیکٹ میں لنک سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر سیمنٹ ڈالنے کا کام شروع ہوا اور ادھر ہم نے اس پر اپنے تخلصات کو ثبت کرنا شروع کردیا تاکہ پکی سڑکوں پر ہمارے تخلصات چمٹے رہیں اور ہمارے درجات اسی طرح قائم و دائم رہیں۔

جگر خون، زخمی دل، دلسوز، ارمانی، خاکسار، ملنسار اور ایسے القابات و تخلصات جابجا کھینچے ہیں کہ درجنوں مزدور آج صبح سے ان نامی گرامی کی شخصیات کے نام مٹانے میں مصروف ہیں اور تو اور بعض لوگوں نے تو اپنی پشاوری چپل اور سروس شور کے سٹینڈرڈ کو ظاہر کرنے کے لئے قدموں کے نشان بھی چھوڑے ہیں۔ اب آپ ہی بتائے بیوٹی فیکیشن منصوبے کو ڈرٹی منصوبہ بنانے والے ان تعلیم یافتہ لوگوں کی سوچ پر سر پیٹنے کے سوا اور کیا چارہ ہے؟

وہ تو بھلا ہو منصوبے پر کام کرنے والے ذمہ داروں کا جو بروقت اس طرح کے نقصانات کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن تشویش اس بات پر ہے کہ سیاحتی سیزن میں لاکھوں کی تعداد میں سیاح وادی کالام آتے ہیں۔

نو تعمیر شدہ سڑکوں کے قریب دکانوں پر ٹائلز لگائے گئے ہیں۔ دیواروں پر گملے بناکر پھول اگائے ہیں۔ اب اگر ایک ایک ٹائل کو اکھاڑ دیں گے اور پھولوں کو توڑ کر بچوں کے ہاتھ میں دیں گے تو ایک مہینے کے اندر ہی لاکھوں کامنصوبہ ہماری معاشرتی غیر ذمہ داریوں کی بھینٹ چڑھے گا۔

ایسے نقصانات کے روک تھام کے لئے چند سال قبل ایک اور قانون وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کے لئے منظور کردیا گیا تھا کہ مخصوص لباس میں اہلکار ہوں گے جو ردی اشیاء اور نسوار سگریٹ پھینکنے والوں کو جرم کی نوعیت سے جرمانہ کرے گا مگر قانون بھی صرف منظوری کی حد تک ہی محدود رہا اور عملی طور پر لاگو نہیں ہوسکا۔

اب بڑی خطیر رقم خرچ کرکے سوات کے ماتھے کے جھومر وادی کالام کا سنگھار کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے تحفظ کے لئے کوئی قانون سازی ہونی چاہیے اور بحیثیت شہری ہمیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے ورنہ وادی کالام ہمارے لئے”د زلفے سورے“ گیسوئے یار کی بجائے بالوں کی خشکی بن جائے گی اور بس۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).