روسی عورت اور انقلاب


انقلاب سے پہلے روسی عورتوں کی زندگی متنوع تجربات سے گزر رہی تھی۔ دولتمند خواتین کی تو تعلیم تک کچھ نہ کچھ رسائی تھی۔ 1870ء کے عشرے کے اواخر میں عورتوں کے لئے اعلیٰ تعلیمی کورسز بھی متعارف کرائے گئے تھے لیکن کسان عورتوں کی اکثریت ناخواندہ تھی جب کہ آبادی میں ان کا تناسب بہت زیادہ تھا۔ طبقاتی فرق کے باوجود پدرسری کی گرفت معاشرے پر بہت مضبوط تھی اور عورتوں کو 1917ء تک خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو، ووٹ ڈالنے یا کسی سرکاری عہدے پر فائز ہونے کا حق حاصل نہیں تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر تک کسان عورتیں فیکٹریوں یا گھروں میں کام کرنے کے لئے بڑی تعداد میں شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے لگی تھیں۔ شہروں میں ان کے اوقات کار طویل اور مشکل ہوتے تھے لیکن ان دیہاتی عورتوں نے پہلی دفعہ خودمختاری کا مزہ چکھا تھا اور دیہی رسوم و رواج سے نجات پائی تھی۔

پہلی جنگ عظیم عورتوں کے لئے مصائب کے ساتھ زیادہ آزادی بھی لے کر آئی۔ محاذ جنگ پر جانے والے مردوں کے کام عورتوں نے سنبھال لئے۔ 1860-70ء کے عشروں میں بہت سی عورتوں نے روس میں پروان چڑھنے والی انقلابی تحریکوں میں شمولیت اختیار کی ۔ ان میں سے اکثر خواتین کا تعلق امرا یا سرکاری افسران کے خاندان سے تھا اور انہوں نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی تھی جہاں انہوں نے اسٹڈی سرکلز بنائے تھے یا ان میں شرکت کی تھی۔ الیگزینڈر دوم کے اصلاحات کے پروگرام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان خواتین نے سماجی انصاف اور سیاسی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ انقلابی خواتین و حضرات نے انقلابی مواد کی اشاعت و تشہیر کے ساتھ ساتھ سیاسی اور اقتصادی دہشت گرد کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔ کسانوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے اور ان میں سوشلسٹ شعور بیدار کرنے کے لئے 1874ء میں ہزاروں انقلابیوں نے دیہاتوں کا رخ کیا۔ زار حکومت نے اس تحریک کو کچلنے میں دیر نہیں لگائی اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ جلد ہی نئے گروپس نمودار ہوگئے، کچھ عدم تشدد کے حامی تھے، کچھ پرتشدد کارروائیوں میں یقین رکھتے تھے۔ ان ہی میں سے ایک انقلابی دہشت گرد گروہ نے الیگزینڈر زار دوم کو قتل کر دیا۔ انیسویں صدی کی چند مشہور ترین انقلابی خواتین میں ویرا زیسولچ۔ ماریہ سپیریڈونووا، ویرا فگنر اور ایکا ٹرینا وغیرہ شامل تھیں۔

1880ء میں روس میں سوشل ڈیموکریسی کے عروج نے محنت کش اور انٹلیجنسیا دونوں طرف کی خواتین کو اپنی طرف راغب کیا۔

انیسویں صدی کے وسط سے روسی دانشوروں جیسے پیٹر کروپوٹکن جیسے انارکسٹ نے عورتوں کے مسئلے میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ان دانشوروں نے جن میں زیادہ تعداد مردوں اور چند طبقہ امرا کی خواتین کی تھی نے عورتوں کے قانونی اور سماجی مرتبے اور خاندان میں ان کے کردار پر بحث کا آغاز کیا۔ 1905 ء کے انقلاب کے بعد روس میں عورتوں کے حق رائے دہی اور مساوی حقوق کے بارے میں بحث زور پکڑ گئی تھی۔ اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ریڈیکل گروپ اور جرنل قائم ہونے لگے تھے۔ بولشویک انقلابی ان گروپس پر تنقید کرتے تھے ، ان کے نزدیک یہ بورثوازی گروپس تھے جنہیں مراعات یافتہ طبقہ کی خواتین چلا رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بورثوا عورتیں محنت کش اور کسان عورتوں کی ضروریات کو نہیں سمجھ سکتیں۔ اور عورتوں کی تحریک محنت کش طبقے کی یکجہتی کے لئے خطرہ ثابت ہو گی۔ 1914ء میں روسی عورتوں کا پہلا سوشلسٹ رسالہ شائع کیا گیا مگر اس نے محتاط انداز میں خود کو نسوانی مسائل سے دور رکھا۔ فروری کے انقلاب کے بعد عورتوں کے حق رائے دہی کی لڑائی تیز ہو گئی۔ مارچ 1917ء میں پیٹروگراڈ میں روس کی عورتوں کی تاریخ کا سب سے بڑا جلوس نکلاجس کی قیادت پولیکسینا کر رہی تھیں جو عورتوں کے مساوی حقوق کی لیگ کی صدر اور روس کی پہلی گائنا کولوجسٹ تھیں۔ ان کے ساتھ انقلابی ویرا فگنر بھی تھیں۔ اس جلوس میں چالیس ہزار عورتوں نے شرکت کی۔ جولائی 1917ء میں بیس سال سے زائد عمر کی عورتوں کو حق رائے دہی اور سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا حق مل گیا۔ اپنے اس نئے حق کا استعمال انہوں نے نومبر 1917ء میں کیا۔

مورخین عام طور پر متفق ہیں کہ فروری انقلاب کا آغاز پیٹروگراڈ میں عورتوں کے جلوس سے ہوا جب ہزاروں عورتیں اپنے لئے روٹی اور سپاہیوں کے خاندان کے راشن میں اضافہ کے مطالبے کے لئے سڑک پر نکل آئیں۔ لیکن اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ عورتوں کی قیادت میں نکلنے والے یہ جلوس خود رو تھے یا کسی شعوری سیاسی عمل کا نتیجہ تھے۔ محققین کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ 1917ء کے انقلاب میں عورتوں نے بہت اہم کردار ادا کیا اور سرخ فوج میں ان کی تعداد اسی ہزار تھی۔ ان میں زیادہ تر ڈاکٹر، نرسیں، ٹیلیفون آپریٹر اور کلرکس تھیں۔ لیکن کچھ نے باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا اور اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہیں۔ ان میں سے کچھ سیاسی کارکن بھی تھیں اور سپاہیوں کو ہدایات بھی دیتی تھیں۔

بالشویک اقتدار کے ابتدائی برسوں میں عورتوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ الیگزینڈرا کولنتائی بالشویک حکومت میں شامل ہونے والی پہلی خاتوں تھیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لئے بہت کام کیا۔ 1918ء کے فیملی کوڈ نے عورتوں کو مردوں کے مساوی مقام اور مرتبہ دیا۔ 1919ء میں ایک ویمن بیورو قائم کیا گیا۔ عورتوں میں خواندگی اور تعلیم کے فروغ پر توجہ دی گئی۔ بچوں کی دیکھ بھال اور گھریلو کاموں کی سہولت فراہم کی گئی۔ عورتوں کی زندگیوں میں بہتری لانے والے اقدامات زیادہ دیر نہ چل سکے اور اسٹالن نے ان اصلاحات کا خاتمہ کر دیا۔ اسٹالن نے پارٹی کا ویمن بیورو بھی ختم کر دیا۔

عورتوں کی آزادی اور مساوات کا اشتراکی خواب کہ عورتیں اپنی مرضی کے کسی بھی شعبے میں کام کریں گی اور کمیونٹی کے ادارے بچوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھالیں گے، پورانہ ہو سکا، توجہ پھر روایتی فیملی یونٹ پر مرکوز ہو گئی۔ اور عورتوں کو گھر اور باہر کے کاموں کا دہرا بوجھ اٹھانا پڑا۔ (حوالہ:کیٹی میک الوینی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).