کمل ہاسن اور رجنی کانت کی سیاست میں آمد


ہندوستان میں فلمی دنیا اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ یہ ٹرینڈ جنوبی ریاست تامل ناڈو سے شروع ہوا جہاں ایم جی راما چندرن، جے للیتا، وجنتی مالا بالی اور شیوا جی گنیشن سیاست میں اترے اور خود کو منوایا۔ جبکہ آنے والے سالوں میں امتیابھ بچن، ونود کھنہ، راجیش کھنہ، دھرمیندرر، ہیما مالنی، راج ببر اور کئی دوسرے اہم اداکار قومی سیاست میں اپنا رنگ جماتے نظر آئے۔ لیکن آج ہم بات کریں گے اپنے دور کے مشہور ترین اور جنوبی بھارت کے باکمال ہیروز کمل ہاسن اور رجنی کانت کی، جنہوں نے چار دہائیوں سے اداکاری میں اپنا سکہ جمایا اور اب تامل ناڈو میں بدلتے سیاسی معروضات کی بدولت وہ بھی سیاست کی کشتی میں سوار ہوگئے۔ ویسے تو ایک عرصے سے ہی رجنی کانت کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ جلد یا بدیر ان کو تامل ناڈو کے سیاسی ریگزار میں اترنا ہی پڑے گا۔ جس کی وجہ رجنی کانت کے تامل سیاست میں گہرے سیاسی تعلقات اور مقبولیت ہے۔

دوسری جانب کمل ہاسن بھی ایک طویل عرصے سے سیاسی طور پر اکثر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہے ہیں۔ دونوں کی سیاست میں آمد کی امیدوں کو اس وقت جلا ملی جب گزشتہ برس تامل ناڈو کی معروف سیاست دان اور وزیر اعلیٰ جے للیتا دسمبر میں انتقال کر گئیں۔ یوں تامل ناڈو کی سیاست میں ایک خلاء پیدا ہوگیا۔ اگرچہ اپنے طور پر جے للیتا کی جانشین کے طور پر ششی کلا سامنے آئیں۔ مگر کرپشن کے چارجز کی بدولت انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔ اس وقت کروناندھی بھی 93 برس کی عمر میں کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ جبکہ ان کے بیٹے سٹالن کو ابھی تامل ناڈو کی سیاست میں خاصی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ان غیر یقینی حالات میں رجنی کانت اور کمل ہاسن کے لئے قدرتی طور پر مواقع سامنے آئے کہ وہ آگے بڑھ کر اس خلاء کو پر کرنے کی کوشش کریں۔

تامل ناڈو ہمیشہ سے ایسا صوبہ رہا ہے جس کی جڑوں میں کئی دہائیوں سے دراوڑی نظریات گہرائیوں سے سمائے ہوئے ہیں۔ دراوڑی سیاست، تامل پہچان اور زبان کو فروغ دیتی ہے۔ 1967 سے ہی کانگرس نے جب سے تامل ناڈو میں حکومت کھوئی تب سے ایم جی راما چندرن کا دور شروع ہوا۔ اور وہاں کی سیاست میں انا ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے، باری باری اقتدار سنبھالتی رہی۔ ایم جی راما چندرن نے اپنی غریب نواز پالیسیوں کے بل پر وزارت اعلیٰ حاصل کی اور طویل عرصے تک تامل سیاست کا سنگھاسن سنبھالا۔ جبکہ ان کی موت کے بعد اداکارہ جے للیتا نے خود کو راما چندرن کا کامیاب جانشین ثابت کیا اور کئی بار انا ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے وزرات اعلیٰ کا بار اٹھایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں تک اپنی دم دار اداکاری سے تامل عوام کے دلوں پر راج کرنے والے دونوں سپر سٹارز رجنی کانت اور کمل ہاسن کے پٹارے میں ایسا کیا ہے جس سے وہ سیاسی میدان میں بھی عوام کو لبھا سکیں؟

رجنی کانت ایک مذہبی شخصیت کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں جبکہ کمل ہاسن خود کو ناستک قرار دے چکے ہیں۔ دونوں نے کچھ فلموں میں مل کر بھی کام کیا ہے۔ کمل ہاسن کو باشعور تامل طبقے کی خاطر خواہ حمایت حاصل ہے۔ جبکہ دوسری جانب رجنی کانت کو غریبوں کا ہیرو مانا جاتا ہے جس نے بطور بس کنڈکٹر اپنی زندگی شروع کی۔ لیکن پچھلے کافی عرصے سے رجنی کو تامل سیاست میں کنگ میکر کی سی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بھی ان سے قریبی روابط ہیں۔ انہوں نے بھی راما چندرن کی طرح بطور اداکار اپنی فلموں میں تامل رابن ہڈ بننے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ اس ریاست میں انا ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے اچھا خاصا ووٹ بینک رکھتی ہیں اور اگلے لوک سبھا چناؤ جو 2019 میں منعقد ہونے ہیں ان میں محض 19 مہینے کا عرصہ بچا ہے۔ اب اتنے کم وقت میں یہ دونوں اداکار کیسے اپنی نئی جماعتوں کی تشکیل کریں گے اور پھر کیسے تنظیمی ذمہ داریوں کو محدود وقت میں نبھا پائیں گے یہ وہ اہم سوال ہے جس کا جواب ان دونوں نووارد سیاست دانوں کو عوام کو دینا پڑے گا۔ کمل ہاسن اور رجنی کانت دونوں ہی فی الحال تامل ناڈو میں کرپشن کو مدعا بنا کر پرچار کرنے میں مصروف ہیں۔

بقول کم ہاسن کرپشن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا پھیلاؤ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ مجھے ووٹ دے کر بدلاؤ کی سیاست کی حمایت کی جائے۔ فوری حل شاید میرے پاس بھی نہ ہو لیکن میں جانتا ہوں کہ سرگرم سیاست کا حصہ بننے کے لئے میرے لئے یہ بہترین وقت ہے۔ پھر ایک اور اہم مسئلہ دونوں کی مقبولیت اپنی جگہ لیکن الیکشن میں پیسہ لگانا اور وسیع پیمانے پر فنڈنگ کا صول ان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ جس کے لئے ان کو شاید تامل اشرافیہ کی ضرورت پڑ جائے۔ ایک اہم بات یہ کہ تامل ناڈو کے سماج اور سیاست میں ذات پات کا بہت غلبہ رہتا ہے۔ اور تامل ناڈو نے اب براہمن غلبے سے چھٹکارا حاصل کیا ہے۔ ایسے میں کمل ہاسن جو خود بھی براہمن ذات سے تعلق رکھتے ہیں وہ کیسے دوسری جاتیوں سے معاملات چلا پائیں گے اگر ان کو جوڑ توڑ سے سرکار قائم کرنا پڑ جاتی ہے۔ تاہم وہ پرامید ہیں کہ وہ اگلے سو دن میں اپنی سیاسی جماعت کی تشکیل کے حوالے سے اہم فیصلہ لیں گے۔ یاد رہے کمل ہاسن اپنے پرستاروں کے ہمراہ پہلے ہی سماجی بہبو د کے کے کئی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔

البتہ اس حوالے سے رجنی کانت خوش قسمت ہیں کیونکہ ان کو حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی ان کو اپنانے کے لئے تیار ہے جو ایک طویل عرصے سے تامل سیاسی قلعے کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر رجنی کانت اپنی بے پایاں مقبولیت کے دم پر بھارتی جنتا پارٹی کو تامل ناڈو دلوا دیتے ہیں تو ان کے وزیر اعلیٰ بننے میں بھی کوئی شک نہیں رہے گا۔ لیکن رجنی کانت اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ محض شہرت اور دولت کے دم پر آپ سیاست میں مسلسل کامیابی حاصل نہیں کرسکتے اس کے لئے اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اگر ضرورت پڑی تو اپنے دوست کمل ہاسن سے بھی سیاسی راہنمائی حاصل کروں گا۔ جبکہ کمل ہاسن کا کہنا ہے کہ میرا اور رجنی کانت کا موازنہ کرنا ایک بچگانہ بات ہے۔ رجنی میرا بہترین دوست ہے۔ لیکن اس وقت تامل سیاست میں ہم دونوں کے لئے کافی گنجائش موجود ہے۔ تاہم تامل عوام 1996 سے ہی رجنی کانت کی سیاسی میدان میں انٹری کے بے تابی سے منتظر ہیں۔

یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے عاری نہیں کہ کمل ہاسن کی سیاست میں سر گرمیاں رجنی کانت کے مقابلے میں زیادہ رفتار پکڑ رہی ہیں۔ جس کا واضح ثبوت کہ کمل ہاسن کھل کر انا ڈی ایم کے پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں اور نئی جماعت کے قیام کے حوالے سے اروند کیجروال سے بھی صلاح مشورے کر رہے ہیں۔ جبکہ رجنی کانت ابھی تک سیاسی نظام کو گلا سڑا کہنے سے ہی کام چلا رہے ہیں۔ دونوں کے سامنے کڑا امتحان یہ ہوگا کہ دونوں اپنی سیاسی ٹیم کا چناؤ کیسے کرتے ہیں کیونکہ یہی وہ فیکٹر ہے جس پر میڈیا اور عوام نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ کیونکہ ایک بات دونوں سپرسٹارز کو سمجھنا ہوگی کہ اب راما چندرن اور جے للیتا کے دن گزر چکے جب ان کے سٹار پاور کے دم پر تامل ناڈو کی جنتا نے ان پر بار بار بھروسہ کیا۔

اب الیکٹرونک میڈیا، عوام کا بڑھتا سیاسی شعور اور ہر دم متحرک سوشل میڈیا کا مظہر، رجنی کانت اور کمل ہاسن پر ہمہ وقت چوکسی بنائے رکھے گا کہ یہ دونوں کس طرح کا منشور پیش کرتے ہیں؟ اور کس منصوبہ بندی کے تحت تامل ناڈو کے الجھے مسائل کو سلجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیونکہ اس وقت کرپشن کے ساتھ تامل ناڈو میں کاویری دریا کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ، ہائیڈرو کاربن کے اخراج کا بحران اورسکولوں میں ہندی زبان کے اجراء سے پیدا ہونے والے مسائل شامل ہیں۔ دونوں حضرات ریاست کی دیگر علاقائی سیاسی جماعتوں کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں؟ نیز ان کے اپنے نظریات کس حد تک ڈراوڈین ازم سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کے لئے ان دونوں کو تامل عوام کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).