سرکاری ملازمت اور بگڑے دل شہزادے شہزادیاں


ہماری قوم(اگر یہ ہجوم قوم کہلانے کے قابل ہے تو) سرکاری ملازمت کے معاملے میں کافی نفسیاتی ہے۔ اپنی سرکاری ملازمت کے سات برسوں میں میں نے جس قومی مزاج کا سامنا کیا ہے اس کے اظہار کے لیے میرے پاس مناسب جذبات بھی نہیں۔ کالج میں لیکچرر کی خالی نشستوں پر تعلیمی سیشن کے آغاز میں معاہدے پہ کچھ اساتذہ کا تقرر کیا جاتا ہے۔ جن کو ( کالج ٹیچنگ انٹرنیز) کہا جاتا ہے۔ اختصار کے لیے ہم اسے CTI کہتے ہیں۔ اس معاہدے کا دورانیہ سات سے آٹھ مہینے ہوتا ہے۔ ہر سال سینکڑوں کے حساب سے لوگ اپلائی کرتے ہیں۔ آئیے آج آپ کا تھوڑا سا تعارف اس نفسیات سے کرادوں۔

اکثر خواتین جو اپلائی کرتی ہیں پہلے پرنسپل کے قریبی رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے ان کے ذریعے فون پہ خالی نشستوں اور درخواست دینے کے طریقوں کی بابت مکمل معلومات لیتی ہیں۔ حالانکہ طالب کو چاہیے کہ وہ مطلوبہ محکمے میں جا کے دفتر سے ازخود معلومات لے۔ لیکن ایسا کرنا ان کی شان کے خلاف ہے لہذا اس پراسیس کے دنوں میں پرنسپل بے چارہ معلوماتی ڈیسک پہ بیٹھا ایک انفارمر بن کے رہ جاتا ہے۔ پرنسپل کو چار پانچ فون کروانے کے بعد درخواست جمع کروائی جاتی ہے۔ انٹرویو کا وقت آجاتا ہے۔ اس دوران پرنسپل، اساتذہ، ہیڈ کلرک سمیت کالج کے تمام نمایاں اور غیر نمایاں لوگوں تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ انٹرویو والے دن ایم پی اے اور ایم این ایز جو باقی پورا سال کسی مسئلے پہ کسی کالج انتطامیہ کی بات نہیں سنتے، فون پہ فون کررہے ہوتے ہیں۔ ہر ایک درخواست دہندہ کی کم سے کم سیکرٹری اور زیادہ سے زیادہ وائٹ ہاوس تک رسائی ہوتی ہے۔ ان ٹیلی فونی سلسلوں کے بیچ انٹرویوز کے سلسلے بھی چلتے رہتے ہیں۔ سیکنڈ اور تھرڈ ڈویژن کے ساتھ ڈھیروں ڈگریوں کا بہت سا بوجھ اٹھائے ان میں کچھ لوگ سیلیکٹ ہوجاتے ہیں۔ رُکیے! اصل قصہ تو اب شروع ہوگا۔

میں انٹرویو کے دوران ایک سوال احتیاطاً پوچھتی ہوں۔ آپ ملازمت کیوں کرنا چاہتی ہیں؟ جواب عموما کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔
مجھے بہت شوق ہے میڈم!
میری مجبوری ہے میڈم! مجھے ملازمت کی ضرورت ہے۔

ملازمت میں آجانے کے بعد، ایک ہفتہ بھی نہیں گزرتا اور وہ شوق، ڈھٹائی میں بدل جاتا ہے۔ چھٹیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ خاندان میں کزن کی شادی ہے، رخصت چاہیے، نند کا بیٹا پیدا ہوا ہے چھٹی کی درخواست ہے۔ کل بارش ہو رہی تھی اس لیے نہ آ سکی، پرسوں شدید سردی تھی بستر سے نکل نہ سکی دیر ہوگئی۔ گرمی بہت زیادہ تھی اس لیے نہ آسکی۔ یہ کیسا شوق ہے؟

اور مجبوریاں بتانے والا طبقہ چند دنوں بعد ہی سٹاف میں بیٹھ کے کچھ ایسی باتیں کرتا سنائی دیتا ہے۔ ہمارے گھر میں روز مٹن پکتا ہے۔ اے مجھے تو ملازمت کی ضرورت ہی نہ تھی بس ایسے ہی گھر میں بیٹھ بیٹھ کے بور ہوجاتی تھی اس لیے اپلائی کردیا۔ مجھے تو جاب کی اجازت ہی نہ تھی بڑی مشکل سے لڑ جھگڑ کے لی ہے( تب یہ بھول جاتی ہیں کہ انہیں اجازت نہ دینے والے گھر والوں نے ان کی ملازمت کے لیے کیسے کیسے پتھر گھِسائے ہیں)۔ ہمارے گھر میں یو پی ایس کے چار یونٹ ہیں، ہر وقت دو دو اے سی چلتے ہیں۔ ( بھئی اگر یہ صورتحال تھی تو کیوں کسی غریب کا حق مارا۔ اس جاب کے لیے آپ کہاں کہاں تک نہ گئے)۔

ملازمت میں آنے کے بعد ان افراد کے نخرے آسمان کو چھونے لگتے ہیں۔ اب ریاست کو حکم دیا جاتا ہے کہ مخمل کی سڑکیں بچھا دے۔ فطرت اپنے موسم ہموار کرلے کہ زیادہ سردی، گرمی میں ان شاہوں سے اپنی ملازمتی ذمہ داریاں ادا نہیں ہوتیں۔ ان کی تنخواہیں ان کو بروقت ملتی رہیں ( اگرچہ ملازمت کی ضرورت نہیں ہوتی)۔ چیک اینڈ بیلنس نہ ہو، کوئی کلاسز لینے کا نہ کہے( اگرچہ پڑھانے کا بہت شوق اور جذبہ لے کے آئے ہیں)۔ پرنسپل کے خلاف کارروائیوں کے طریقے اور اپنے حق میں آسانیوں کے نسخے پرانے گھاگ ملازمین کی وساطت سے ان کو ازبر ہوتے ہیں۔ جنہیں یہ وقتاً فوقتاً آزماتے بھی رہتے ہیں یہ الگ بات کہ منہ کی کھاتے ہیں۔

یہ شوق اور یہ مجبوریاں ادارے کو بھی مہنگی پڑتی ہیں اور ریاست کو بھی۔ میں اب سمجھی ہوں کہ لوگ سرکاری ملازمت پہ کیوں مرتے ہیں۔ کیوں ہماری تساہل پسند قوم بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے بہتر سے بہتر معیارِ زندگی چاہتی ہے۔ اور یہ سرکاری ملازمت میں ہی مل سکتی ہے۔ کام کرنے کو ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اچھی تنخواہ کے ساتھ ایسی ملازمت چاہیے کہ جس میں کام ہو نہ نگران، جس میں ترقی بھی ملتی رہے اور انکریمنٹس بھی۔

اور دوسری طرف ایک اور طبقہ ہے جو درجہ چہارم کہلاتا ہے۔ یہ لوگ جو ملازمت سے پہلے سیاستدانوں کے پیروں میں بیٹھے ہوتے ہیں، ملازمت ملتے ہی چوہدری اور مہر نکل آتے ہیں۔ نوکری ملنے سے قبل یہ حالت ہوتی ہے کہ سرکار جاروب کش ہی لگادے، چند ہزار کا آسرا ہوجائے گا۔ جب جاروب کش کا منصب عطا ہوجاتا ہے تو ان کرم فرماؤں کی آنکھ کھلتی ہے کہ وہ تو زمیندار ماں باپ کے گھر میں رقبوں کے مالک بن کے پیدا ہوئے تھے۔ یہ کیا کٹک ہو گیا․․․․اب راٹھ بچہ جھاڑو لگائے گا کیا؟ اب اس سے بڑی بے عزتی بھی کوئی ہے ٹھاکر کی؟ ان کو سدھارنے کی بھی کوئی صورت نہیں۔ ڈانٹ دیں تو بات گلی محلے میں جاتی ہے افسر کی بدمزاجی کی۔ کاغذی و غیر کاغذی مار بھی نہیں دے سکتے کہ ڈاکٹروں نے جو پچھلے دنوں خاکروب کو مار کے دیکھا ہے۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ کے مصداق افسر کو خاموشی میں ہی بھلائی نظر آتی ہے۔ کہ کسی کے دیدوں میں پانی ہو تو حلال کر کے کھائے۔ گدھ کو مردار سے کون روک سکتا ہے۔

اور اس ساری صورتحال کے بعد یہ بھی سمجھ آئی ہے کہ آخر کیوں لوگ نسل در نسل حکومت کے ساتھ چِپکے ہوئے ہیں۔ کچھ کرسیاں نہ چھوڑنے کی تگ و دو میں ہیں اور کچھ کرسیاں پانے کی۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کہ اگر حکمرانی کے ساتھ ذمہ داریوں کا تصور بھی ہو تو ایک شخص کے حقوق کی حفاظت بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔

اور یہاں کروڑوں لوگوں کے حقوق کا معاملہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی ہڈیوں کا پانی سوکھانے کا اہتمام کرلیں۔ یہ ایک خواہش ہی ہے بقول فیض
یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا، یوں ہو جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).