کیا ختم نبوت کا الیکشن تنازعہ نواز شریف کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا؟


پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دورحکومت میں ایک انوکھا طریقہ کاراختیار کیا گیا تھا۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ یہ طریقہ کار صدر آصف علی زرداری کے کثیر السمتی متحرک دماغ کی پیداوار تھی۔ اس طریقہ کار کی موجد تو پیپلز پارٹی تھی مگر پھر تمام حکومتی، غیر حکومتی، باوردی اور بے وردی سبھی اداروں نے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ طریقہ کار یہ تھا کہ جب کبھی حکومت یا ادارے کو کوئی متنازعہ فیصلہ کرنا ہوتا اس سے قبل یا فوری بعد اسی کے برابر یا زیادہ شدت کا حامل مگر بالکل الگ نوعیت کا واقعہ رونما ہو جاتا۔ پھر ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو جاتا۔ میڈیا، عوام اور مخالف سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کی توجہ دوسری جانب موڑ کر اپنا کام آسانی کے ساتھ مکمل کر لیا جاتا۔

پیپلز پارٹی کے دور میں ہونے والے تمام بڑے، اہم اور متنازع فیصلوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی ضمنی تنازعہ ضرور جڑا ہے۔ اداروں نے بھی اپنی اہم کارروائیوں پرسے توجہ ہٹانے کے لیے یہی طریقہ کار اختیار کیے رکھا۔ ایک محاذ سے توجہ ہٹانے کے لئے دوسرا محاذ کھولنے کی حکمت عملی خاصی حد تک کامیاب بھی رہی۔

نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بھی ادراک تھا کے سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد سیاست میں فعال رہنے اور پارٹی کی قیادت اپنے پاس رکھنے کے لئےکی جانے والی آئینی ترمیم کے اقدام سے ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں حاصل اکثریت کوایک شخص کے لیے استعمال کر کہ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑانے کوعوام میڈیا اورسیاسی مخالفین اتنی آسانی سے نظر انداز نہیں کریں گے۔

لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر اس تنازعے کے ساتھ ایک اور تنازعہ نتھی کردیا جائے تو وقتی طورپر اس مسئلہ سے توجہ ہٹائی جا سکتی ہے۔ ویسے بھی پاکستانی عوام قلیل الوقت یاداشت کے حامل ہیں انہیں جلد بھولنے کی بیماری ہے۔ بھلے وہ مشرقی پاکستان کا سانحہ ہو، بھٹو کا قتل، بینظیر کی شہادت، اسامہ بن لادن کی ہلاکت یا پھر اے پی ایس کا سانحہ، عوام بالاخر بھول ہی تو گئے۔ اس پر مزید یہ کہ اگر مسئلہ مذہبی نوعیت کا ہو، اسےتوہین رسالت، توہین مذہب، ختم نبوت یا کسی اور مذہبی مسئلے کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو لوگ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کو بھول کر آسیہ ”ملعونہ“ کی پھانسی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

لہذا ہماری رائے میں الیکشن قوانین میں حالیہ ترامیم کے دوران ختم نبوت کے مسئلہ کو چھیڑنا کوئی حادثہ یا اتفاق نہیں بلکہ ایک طے شدہ عمل تھا جس کا مقصد لوگوں کی توجہ کو تقسیم کرنا اور اس تنازعہ کی آڑ لے کر اس قانون میں ہوئی اصل تبدیلیوں کو نگاہوں سے اوجھل رکھنا ہے۔ مسلم لیگ(ن)اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہی ہے۔ احسن اقبال کا رینجرز کے ساتھ تنازعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتا ہے۔

سپیکر اسمبلی ایاز صادق نے اعلان کر دیا ہے کہ حلف نامہ کو اس کی اصل حالت میں بحال کر دیا جائے گا اور یوں یہ تنازعہ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ تمام مذہبی اور سیاسی قوتیں ابھی سے اسے اپنی فتح اور کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ”نون“ اپنی کامیابی پر خوش اور“جنوں“ اپنی فتح پر سرشار۔ اسے کہتے ہیں کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).