جناب عامر ہاشم خاکوانی صاحب کے نام ایک بند بند سا خط


طالبعلم آپ کی تحریر میں سنجیدہ دلچسپی رکھتا ہے۔ ادارتی مرقع نگاری کی اس نئی ‘دنیا’ سے بہت پہلے، آپ کو فیس بک پر ایک عرصہ فالو کیا بلکہ ہنوز کر رہا ہے

مکالمہ ، مباحثہ اور دلیلی معاملہ میں آپ کی دلنواز تحریر نے ابتدائی سا نقشہ ایسا کھینچا تھا کہ آپ دائیں طرف بیٹھ کر بھی بلند قامت دکھتے تھے۔ دھیمے ، شائستہ جو متوازن، علم و ادب کے رسیا، معاملہ فہم اور من اندر کی صوفیانہ روشنائی سے انسان دوست نگارشات سجاتے مدیر، صحافی اور تخلیق کار۔۔۔

مگر پانامہ کیس کے بعد جوں جوں کچھ سیاست دان کھل کر بولنے لگے آپ کی تحریر بھی کھلتی گئی۔ افسوس ہوتا تھا کہ کِھلتی ہوئی تحریریں کیوں اتنا کُھلنا شروع ہوئیں کہ کَھلنے لگی ہیں۔۔۔ افغانستان ، عمران خان سمیت کئی اور حساس موضوعات اس کے گواہ ہیں۔

انہی میں ایک موضوع حالیہ قانونی ترمیم کے “الجھاؤ سے سلجھاؤ تک” میں آپ کا مسلسل جوشیلا انداز تحریر ہے۔

موضوع تو تھا ہی نازک، ذرائع ابلاغ پر مکالماتی اظہاریہ بھی اتنا حساس بنا دیا گیا ہے کہ اس پر قانونی تکنیکی بلکہ کلرکانہ بحث جیون پر ”تاثیر” بنا سکتی ہے۔

سو ترمیمی فکر و خیال کے بجائے آپ کے انتہائی جوشیلے اسلوب تحریر پر حیرت کا اظہار کرتا ہوں جسے اغلباً آپ عقیدت، ایمان اور جوش غیرت سے تعبیر کریں گے تاہم ایک مسلمان ہوتے ہوئے مجھے تو یہی سمجھ آئی ہے کہ ریاست اس معاملے میں… حکمرانوں کو ایڈجسٹ کرنے کیلئے موم کی ناک ادھر ادھر مروڑ رہی تھی.. ایسے میں ایک لفظ اور بھی چھیڑ گئی۔۔۔  نشاندہی ہوئی تو فوراً درستی کے ساتھ معافیوں تلافیوں تک اتر گئی ۔

 ایسے میں غربت، جہالت، محکومی ، وراثت اور دہشت کے مارے عوام کو… معاملہ ختم ہو جانے پر بھی … جہادی تحریک اور اضطرابی ترغیب دینے کی ضرورت باقی تھی سر؟

 یہ غلطی تھی یا شرارت..؟ جب اعتراف بھی ہو چکا.. معاملہ صاف بھی ہو چکا تو … ‘موت بھی قبول ہے..’ جیسے جذباتی سٹیٹس مناسب ہیں.. وہ بھی اس نیازانہ گزارش کے ساتھ کہ اس پیغام کو بنا نام کے، ہر خاص و عام سے گزارا جائے…

آپ کا دعوی ہے کہ آپ لفظ کی اہمیت نشست اور حرمت جاننے والے لیکھک ہیں… سو سب جانتے ہیں کہ ادھرشہر ہوں یا بن، عدم برداشت چھریاں تیز کرتی ہے…. میدانوں کی حالت یہ ہے کہ ایسا ہی جوشیلا اسلوب خطابت کی کج فہمی سے پھسلتا ہے تو مسیحی حاملہ مزدور عورت جل کر کوئلہ بن جاتی ہے اور ادھر پہاڑوں پر کتنے جوان ایڑیاں رگڑ رگڑ کر کمہلاتے ہیں اور مشال خان بن جاتے ہیں..

میں اب بھی حسن ظن رکھتا ہوں… یہ حسن ظن کہ آپ سلگتےبپھرتے سماج میں تحمل ، شائستگی اور رواداری کی اشد ضرورت سے واقف ہیں … آپ اہل قلم ہیں.. لفظ کی حرمت جانتے ہیں اور انسان کی بھی….

یہ سطور لکھتے ہوئے ٹی وی اینکر کی چیخ چنگھاڑ قلم کو روک دیتی ہے ۔

جھل مگسی میں درگاہ فتح پور پر عرس کی تقریب میں زائرین دعا میں مصروف تھے کہ خودکش بمبار نے خود کو دھماکہ سے اڑا دیا۔ ابھی تک سولہ افراد کی ہلاکت اور اکتیس کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

حسن ظن قائم ہے۔

سوسائٹی کو ، اپنے تئیں ، روادار اور بردبار بنانے کی سعی کرنے والا وہ پرانا دانشور ، امید کرتا ہوں، جواب الجواب کی بجائے اپنے بدلتے اسلوب پہ نظر کرے گا۔

 محبت، سلامتی اور سکون کا طلبگار ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).