مجھے ہاتھ مت لگاؤ۔۔۔


عام انتخابات کے فوری بعد ایک اہم اجلاس جاری تھا، سامنے اقتدار کی بساط بچھی تھی، اہم ترین کھلاڑی اور مہرے پُرتجسس نظروں سے اپنا حصہ ملنے کے منتظر تھے۔ ایک انتہائی غیر معمولی اور ”جادوئی صلاحیتوں “ کا حامل شخص اجلاس کی صدارت کر رہا تھا۔ آپ اسے ”سلیمانی شخص“ بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ وہ اجلاس میں موجود تو تھا لیکن دکھائی نہیں دے رہا تھا، البتہ جب وہ بات کرتا تو اس کی آواز بازگشت کی طرح سب کو سنائی دیتی تھی۔ ہاں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ اس کے ہاتھ فضا میں بلند ہوتے پھراچانک غائب ہو جاتے، شاید ایسے ہی ہاتھوں کو ”غیر مرئی ہاتھ“کہا جاتا ہے۔

سلیمانی شخص کے سامنے دو الگ الگ رو میں کرسیاں لگی تھیں۔ بائیں طرف کی نشستوں پر ایک بڑے میاں اداس بلبل کی طرح تنہا بیٹھے تھے، باقی تمام افراد دائیں طرف تشریف فرما تھے اور خوب چہک رہے تھے، یہ وہ لوگ تھے جنہیں انتخابات کے فاتحین قرار دیا گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ عام آدمی کی طرح انہیں بھی معلوم تھا کہ اس فتح میں خود ان سے زیادہ جادوئی ہاتھوں کا کمال تھا۔ بڑے میاں کے چہرے سے صاف نظر آ رہا تھا کہ موجودہ حالات سے وہ قطعی خوش نہیں، خاص طور پر جب جادوئی ہاتھ فضا میں بلند ہوتے تو وہ غصے سے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیتے تھے حالانکہ ایک زمانے میں یہ ہاتھ خود ان کے اپنے سرپر ہوتے تھے، تب وہ خود کودنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کرتے تھے، ان ہاتھوں کے ان پر بہت سارے احسانات بھی تھے لیکن شاید یہ گئے وقتوں کی باتیں تھی، فی الحال توانہیں یہ ہاتھ بالکل اچھے نہیں لگ رہے تھے، انہیں لگتا تھا کہ ان کی ہر پریشانی اور مصیبت کی وجہ بس یہی ہاتھ ہیں، ایک موقع پر تو وہ پھٹ پڑے۔ ”مسٹر سلیمانی! آواز سن رہا ہوں یہی کافی ہے، اپنے یہ ہاتھ مجھ سے دور رکھیں۔ یہی وہ ہاتھ ہیں جوعوام کی حقیقی آواز کا گلہ گھونٹتے آئے ہیں۔ میں آپ سے کہہ رہا ہوں، آپ یہ کمالات بند کر دیں، میں بھی تھک گیا ہوں اور قوم بھی۔۔۔ “ کمرے میں موجود کئی لوگوں کے منہ حیرت سے کھل گئے، شاید کسی کو بھی اس گستاخی کی توقع نہیں تھی۔

سلیمانی شخص سے کچھ ہی فاصلے پرایک موٹے تازے مولانا بھی بیٹھے تھے، بولے۔ ” صدرمجلس! آپ کہیں تو ان ”بڑے میاں “کی زبان گدی سے کھینچ۔۔۔ “ ان کا جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ بازگشت نما آواز نے مداخلت کی۔ ”نہیں نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ اس وقت بڑے میاں کی حالت اس غریب کی سی ہے جو غصے میں دیوار کو ٹکر تو مار سکتا ہے لیکن کسی سے ٹکرا نہیں سکتا“ کچھ دیر کے لیے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔

صدارتی کرسی کے عین برابر ایسا شخص براجمان تھا جو بزرگ ہونے کے باوجود نوجوانوں کا نمائندہ ہونے کا دعوے دار تھا، لگ رہا تھا کہ وہ ابھی ابھی اپنے بال ڈائی کروا کر آیا ہے، اس کی خوشی کا یہ عالم تھا کہ مستقل نیم بند رہنے والی اس کی آنکھیں آج پوری طرح کُھلی ہوئی تھیں، ویسے تو اسے الیکشن سے پہلے ہی وزارت عظمیٰ کی خوشخبری سنا دی گئی تھی لیکن اسے یقین انتخابی نتیجہ دیکھ کر ہی آیا تھا۔ نتیجہ بھی ایسا جس کی اسے شاید خود بھی توقع نہیں تھی۔ اچانک وہ ہاتھ آگے بڑھے اور مولانا کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا، ساتھ ہی ہدایت کی۔ ” یہ دوستی صرف انتخابات تک محدو د نہیں تھی، یہ تعلق آئندہ بھی برقرار رہنا چاہیے۔“ یہ سننا تھا کہ سامنے بیٹھے بڑے میاں کے چہرے پر موجود وحشت کچھ اور بڑھ گئی۔ ” یہی وہ گٹھ جوڑ ہے جس نے میری جماعت کو اکثریتی پارٹی بننے سے روکا ہے۔ “ وہ بڑبڑائے۔ یہ سوچ کر ان کا خون مزید کھول رہاتھا کہ بڑے صوبے میں اکثریتی نشستیں حاصل کرنے کے باوجود انہیں حکومت بنانے سے روکا جا رہا تھا، بلکہ ابھی سے گورنر راج کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔

سلیمانی آواز اب ایک اور شخص کی جانب متوجہ ہوئی جو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے بائیں جانب بیٹھا مسلسل مسکرا رہا تھا، سر پر مخصوص طرز کی ثقافتی ٹوپی پہن رکھی تھی، بے حساب دولت کا مالک ہونے کے باوجود مخالفین اسے سینما کی ٹکٹیں بلیک کرنے کے طعنے دیتے تھے، اچھی یا بری لیکن شہرت میں وہ اکیلا ہی سب پر ”بھاری“ تھا۔ کمرے میں بازگشت گونجی”مسٹر، آپ کے لیے کچھ نہیں بدلا۔ آپ پہلے کی طرح انجوائے کریں لیکن اس بارآپ کو پرانے دوستوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے، ہمارے ان دوستوں کو لندن کے بجائے پاکستانی سیاست کرنے کا صلہ ملنا چاہیے۔ “ یہ سنتے ہی مولانا نے بھی مداخلت کی۔ ”جناب صدر! قومی سلامتی اور مفاد ہمیں جاں سے عزیز ہے لیکن یہ کالعدم والی تلوارہمیشہ کے لیے ہم سے دور رہنی چاہیے۔ “ آگے سے کوئی آواز نہیں آئی، جس کا مطلب تھا کہ شاید یہ بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ عالمی شہرت یافتہ بھاری بھر سیاست دان نے اپنے برابر بیٹھے دبلے پتلے شخص کی طرف دیکھا جو پاجامے کرتے جیسے روایتی لباس کی بجائے پینٹ شرٹ میں ملبوس تھااور اپنی تراشیدہ داڑھی کو مسلسل کھجا رہا تھا۔ ” آپ فکر نہ کریں، ان کے ساتھ کام کرنے کا ہمارا پرانا تجربہ ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ روٹھ جائیں تو انہیں منانا ہمیں آتا ہے۔ “ یہ کہہ کرانہوں نے اپنے سر پر سے مخصوص ٹوپی اتاری اور اس دبلے پتلے شخص کے سر پر رکھ دی۔ بڑے میاں نے یہ نظارہ دیکھا تو ایک بار پھر تلملا کر رہ گئے، اس کے ساتھ ہی اجلاس ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا لیکن وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو وہیں روک لیا گیا۔

لوگوں کے جاتے ہی ان کے سامنے ایک کاغذ رکھ دیا گیا، ساتھ ہی کمرے میں آواز گونجی۔ ”اس شرائط نامے پر پہلے دستخط کرنے ہیں اور بعد میں پڑھنا ہے۔ حلف اٹھانے سے پہلے یہ معاہدہ ضروری ہے۔ “ بظاہر یہ ہدایت انہیں عجیب لگی لیکن وزیراعظم بننے کی خوشی ایسی تھی کہ انہوں نے فوری طور پر دستخط کردیے پھر اطمینان سے پڑھنے لگے۔ ” وزارت خارجہ، وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور ایک دو اور وزارتیں جو بعد میں بتائی جائیں گی آپ کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گی، خاص طور پر ہمسایہ ملکوں سے تعلقات، دفاعی بجٹ اور سیکیورٹی معاملات میں آپ کا کوئی کردارنہیں۔۔۔۔۔ “ شرائط پڑھتے ہوئے وہ ایک ہی بات سوچ رہے تھے کہ اس سے زیادہ اختیارات تو کرکٹ ٹیم کے کپتان کے پاس ہوتے ہیں۔ آخر میں لکھا تھا البتہ ”ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح” آپ جب اور جہاں چاہے کر سکتے ہیں، اگلے دن حلف اٹھاتے ہی نئے وزیراعظم کا پہلا بیان جاری ہوا۔ ”آج سے ملک میں حقیقی جمہوریت کا آغاز ہوگیا ہے۔ قوم کویہ تاریخ ساز تبدیلی مبارک ہو۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).