ایک نایاب تاریخی دستاویز: عاشق حسین بٹالوی بنام غلام رسول مہر


مرشدِ من، عثمان قاضی ان دنوں صاحب فراش ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ اب تک ’ہم سب‘ میں محفل آرا نہیں ہو سکے۔ طبیعت کسی قدر بحال ہونے پر ایک خاص لطف نامہ ارسال فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں….

”آداب۔ بستر علالت پر پڑا ’ہم سب‘کی روز افزونی دیکھ رہا ہوں اور رشک و فخر ہی ہے جو اس شدید بیماری کو یک گونہ گوارا بناے ہوئے ہے۔ آپ کا شذرہ دربارہ بٹالوی برادران نظر نواز ہوا۔ میں آغا بابر کو غلام عباس کے برابر کا اور بیدی، کرشن چندر، احمد عباس سے اونچے درجے کا افسانہ نگار سمجھتا ہوں۔ ذاتی رائے ہے اور سراسر ذوقی۔ عاشق بٹالوی صاحب کے مجموعہ مضامین کا ذکر دلپذیر بھی دیکھا. اس مجموعہ میں بٹالوی صاحب کے نام مولانا غلام رسول مہر کا ایک خط مشمول ہے جو راج گوپال اچاریہ فارمولہ سے متعلق بٹالوی صاحب کے استفسار کا جواب ہے۔ (غلام رسول ) مہر مرحوم کے صاحبزادے محترم امجد سلیم علوی کی کمال مہربانی سے بٹالوی صاحب کا اصل خط دسترس میں آیا. دیکھیے، ”آگ جب ہم کو دکھائی تو تماشا نکلا….“ کے سامان کی پوٹ ہے۔ اسے طویل غیر حاضری کا جرمانہ سمجھ لیجیے یا گرو دکشنا۔ مجھے گمان غالب ہے کہ آپ کے لئے نئی چیز ہو گی۔ “

جی ہاں نئی چیز بھی ہے اور ایسا در نایاب کہ ’ہم سب‘ کے پڑھنے والوں کو اس سے محروم رکھنا ناانصافی بلکہ خیانت ہو گی۔ مکتوب ملاحظہ ہو

40 ایجرٹن گارڈنز
لنڈن SW3

2 جنوری 1954

صدیقی و حبیبی حضرت مولانا مہر ، السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

میں گزشتہ سال چار مارچ کو لندن پہنچ گیا تھا اور یہاں آنے کے چند روز بعد آپ کا گرامی نامہ بھی ملا تھا ۔ وہ خط اب تک آپ کی محبت و شفقت اور آپ کے لطف و کرم کی ایک قیمتی دستاویز کے طور سے میرے پاس محفوظ ہے۔ اس دوران میں ایک بار نہیں بلکہ بیسیوں مرتبہ آپ کو خط لکھنے کا ارادہ کیا لیکن یکسوئی کی نعمت میسر نہ آسکی۔ یوں بھی طبیعت میں ایک اضطراب اور کشمکش سی جاری رہتی ہے جو بعض اوقات قلم کو چلنے نہیں دیتی۔ میں خود اس کشمکش کا معنوی تجزیہ کرنے سے قاصر ہوں۔ یوں سمجھئے کہ اگر اضمحلال، تکدر، اضطراب، پشیمانی، ندامت ، رنج، غصہ اور بے بسی کو کھرل کر کے ان کے ہم وزن مستقبل کی تاریکی اور مایوسی ملا لی جائے تو شاید یہ مرکب میرے دل و دماغ کی موجودہ کیفیت کی کسی حد تک ترجمانی کر سکے گا۔ تاہم اس دوران میں آپ کو بار بار یاد کیا اور بعض احباب کے ساتھ اکثر آپ کا ذکر آیا۔ اگر قلب اور ضمیر کی صفائی موجود ہے تو یقینا اپ کو بھی چھ ہزار میل کے فاصلے پر اس کا احساس ہوا ہو گا۔ میں اکثر آپ کو حسب معمول برآمدے میں آرام کرسی پر بیٹھے دیکھتا ہوں۔ حقہ سامنے ہے اور پہلو میں تپائی پر کتابیں رکھی ہیں۔ لکھنے پڑھنے میں مصروف ہیں یا کسی ملاقاتی سے باتیں ہو رہی ہیں۔ میرے لیے تو ڈاکٹر اقبال، شیخ عبدالقادر اور ملک برکت علی کے بعد لاہور میں صرف آپ ہی کا آستاں تھا جہاں علم و فضل کی بات کان میں پڑ سکتی تھی۔ بہت مدت غلط فہمیوں میں گزر گئی اور جب میں نے تلافی ملاقات کرنی چاہی تو قضا و قدر نے وطن سے بہت دور یہاں لا پھینکا۔

غلام رسول مہر

لاہور میں ہماری معیشت و معاشرت نے جو رنگ اختیار کیا ہے اس کے پیش نظر مجھے یقین ہے کہ آئندہ عرصہ دراز تک آپ کے پائے کا ہمہ گیر انسان ہمارے ہاں پیدا نہیں ہو گا۔ افسوس ہے آپ کا قلم بھی حوادث نے توڑ کر رکھ دیا۔ جس ملک کی علمی فرو مائیگی کا یہ عالم ہو کہ رفاقت کمیٹی سے دس روپے لے کر تقریر کرنے والے علاﺅالدین صدیقی ’علامہ‘ کہلائیں اور محمد باقر ”رئیس شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی“ کا بلند  آہنگ لقب اختیار کرکے کلام اقبال کی شرح لکھے وقت  ”یہ آیہ نو جیل سے نازل ہوئی مجھ  پر“ کی تفسیر یوں کریں کہ ’نئی انجیل کی یہ آیت مجھ پر نازل ہوئی ہے“۔اس ملک میں غلام رسول مہر کے بعافیت زندہ رہنے کا کیا امکان ہے۔ تاہم مجھے امید ہے کہ آپ نے بھی پامردی کے ساتھ اب تک مصائب کا مقابلہ کیا ہے۔ اسی حوصلہ اور جواں ہمتی سے اس سفلہ پرستی کے دور کو بھی آپ سلامتی سے عبور کر جائیں گے۔

میں یہ معلوم کرنے کے لیے بے تاب ہوں کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں۔ جب میں لاہور سے چلا تھا تو آپ حضرت سید احمد بریلوی اور اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ کے جہاد حریت کی تاریخ لکھ رہے تھے۔ وہ کتاب تو اب تک چھپ چکی ہو گی۔ خدا جانے میں اس کی زیارت سے کب بہرہ ورہو ں گا۔ میں جب یہاں آیا تو ڈاکٹر اشرف بھی چار سال سے لندن میں پڑے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر اشرف تو آپ جانتے ہوں گے۔ 1937-38 ءمیں جواہر لال کے سیکرٹری تھے۔ پھر کمیونسٹ پارٹی میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے لندن میں نہایت تنگ دستی اور مصیبت کا وقت گزارا ہے تاہم ان کو اپنے عقائد کی حرمت جسم و جان کی راحت سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔اور عقائد کی اس حرمت کی خاطر وہ برسوں آلام کا شکار رہے۔ آپ کا ذکر بڑی محبت سے کرتے تھے اور سید احمد بریلوی پر آپ کی معلومات پڑھنے کا بہت شوق رکھتے تھے۔ انہیں ہندوستان واپس جانے کی اجازت مل گئی تھی چنانچہ آج کل غالبا ً علی گڑھ میں ہیں ۔ آپ کے مرتبہ شناسوں اور قدردانوں میںراز مراد آبادی اور صدیق احمد صدیقی بھی ہیں۔ یہ دونوں یہاں بی بی سی میں مقیم ہیں اور ہمیشہ آپ کا نام ادب و احترام سے لیتے ہیں۔ برادر عزیز اعجاز حسین بیرسٹری کے امتحان سے تو گزشتہ مئی میں فارغ ہو گئے تھے۔ اب لندن کے ایک مشہور بیرسٹر کے ساتھ چیمبر کا کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے حالات سن سن کر گھبراتے ہیں لیکن اب انہیں واپس جانا ہی پڑے گا۔ شاید اپریل میں وطن کا رخ کریں گے۔

میں جب سے یہاں آیا ہوں بیشتر وقت برٹش میوزیم اور انڈیا آفس لائبریری میں صرف کیا ہے۔ انڈیا ہاﺅس کی پوری لائبریری، جو عجیب و غریب نوادر سے بھری ہوئی تھی، ہندوستان کو مل گئی ہے۔ ایک کتاب بھی ہمارے حصے میں نہیں آئی۔ انڈیا آفس لائبریری برطانوی حکومت کی ملکیت قرار پائی ہے البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستانی رﺅسا کے ساتھ مختلف اوقات میں جو معاہدے کیے تھے وہ تمام مسودے اس لائبریری کی الماریوں سے نکال کر ہندوستان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ برٹش میوزیم میں گزشتہ مہینے مشرقی مخطوطات کی ایک بے مثال نمائش لگی تھی جو ہر اعتبار سے دیکھنے کی چیز تھی۔ میں نے اس نمائش کا تبصرہ بی بی سی سے نشر کیا تھا۔ ایٹلی اور بیون سے بھی ملا ہوں۔ اٹیلی تو ہونٹ چبا کر بات کرتے ہیں لیکن بیون صاف گو آدمی ہیں۔ میں نے دونوں سے پوچھا کہ آپ نے ہندوستان کو کیوں تقسیم کیا۔ اٹیلی نے جواب دیا کہ ہم کیا کرتے،مسلمانوں کا مطالبہ تھا۔ بیون نے صاف صاف کہا کہ متحدہ ہندوستان مغرب کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتا تھا۔ ہم نے تقسیم کر کے اسے کمزور بنا دیا۔ لندن میں پاکستانی سفارت خانے کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جو دھاندلی لاہور میں مچی ہوئی ہے اور جو ہڑبونگ کراچی میں جاری ہے ، من و عن اس کا عکس یہاں پاکستان ہاﺅس میں نظر آتا ہے۔ ہر شخص قلیل ترین محنت اور کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹ لینا چاہتا ہے اور یہ وصف اب ہمارا قومی شعار بن کر رہ گیا ہے۔ یورپ، ایشیا، افریقہ جہاں جہاں پاکستانی سفارت خانے قائم ہیں وہاں یہ وبا جاری ہے اور ذلت و رسوائی کی حد تک پہنچ گئی ہے۔

عاشق حسین بٹالوی

میں جو کتاب لکھنے کا ارادہ کرتا تھا اس کا بمشکل خاکہ مرتب کر چکا ہوں۔ نہیں کہہ سکتا یہ کام کب شروع ہو گا اور اگر ابتدا کر بھی لوں تو حسب منشا اسے تکمیل تک بھی پہنچا سکوں گا یا نہیں۔ آپ ازراہ کرم ذیل میں چند سوالوں کا جواب عنایت کیجئے۔

1 ۔ جناح نے 1944 ءمیں راج گوپال فارمولا کیوں رد کیا تھا؟

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جناح کو اندیشہ تھا کہ اگر اس نے یہ فارمولا قبول بھی کر لیا تو کیا بعید ہے کہ 1916 ءکے لکھنو پیکٹ کی طرح کل کو کانگریس اس سے بھی منحرف ہو جائے۔ اگر کانگرس کھلم کھلا منحرف نہ بھی ہو تو ممکن ہے وہ مہاسبھا کو آگے بڑھا کر ہنگامہ بپا کر دے اور جناح بے بس ہو کر رہ جائے۔ اندریں حالات جناح چاہتا تھا کہ تقسیم ہند کا فیصلہ انگریز سے کرائے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جناح کانگرس سے کسی قسم کی مفاہمت کرنا چاہتا تھا اگر وہ راج گوپال فارمولا قبول کر لیتا تو اسے لامحالہ کانگرس کا ہم نوا بن کر انگریزی حکومت کے خلاف محاذ قائم کرنا پڑتا۔ ادھر جناح اس قسم کی متحدہ تحریک سے کوسوں دور بھاگتا تھا کیونکہ ایسی تحریک میں اسے یقینا ثانوی حیثیت حاصل ہوتی اور اگر وہ انگریزی حکومت کے خلاف متحدہ محاذ قائم کرنے میں کانگریس کا ہم نوا نہ ہوتا تو خود مسلم لیگ کا ایک طبقہ کٹ کر اس قسم کے محاذ میں شامل ہو جاتا۔ جناح نے محض اپنی جداگانہ قیادت کی (جو جزوقتی و کلا ً کانگرس کے خلاف تھی) گرم بازاری قائم رکھنے کی خاطر راج گوپال فارمولا رد کیا۔

ان دونوں متذکرہ آرا میں آپ کس کو قابل قبول خیال کرتے ہیں؟

raj gopal acharya

2 ۔ اگر جناح راج گوپال فارمولا قبول کر لیتا تو اس کے کیا نتائج مرتب ہوتے؟

میری ناچیز رائے ہے کہ پہلا نتیجہ یہ ہوتا کہ قلعہ احمد نگر کے دروازے حکومت کو کھول دینا پڑتے اور کانگرس کے تمام لیڈر رہا ہو کر باہر آجاتے اور وہ صمیم قلب سے جناح کے شکر گزار ہوتے۔ ان کی اس شکر گزاری کا سب سے بڑا فائدہ ہمیں یہ پہنچتا کہ ہم تقسیم ہند کا اصول برضا و رغبت منوا کر ان سے بڑی سے بڑی رعایت حاصل کر سکتے تھے اور یہ سارا خون خرابہ کبھی برپا نہ ہوتا۔ کشمیر ہمیں یقینا مل جاتا اور پاکستان کے حدود بھی زیادہ وسیع ہوتے۔

3 ۔ اگر مونٹ بیٹن پاکستان اور ہندوستان کا مشترکہ گورنر جنرل بن جاتا تو کیا نتائج رونما ہوتے؟

میری ناچیز رائے یہ ہے کہ ہمارے حق میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ کشمیر کبھی ہندوستان کے قبضے میں نہ آتا۔ اگر سری نگر ہندوستان سے الحاق کشمیر کی درخواست بھی کرتا تو ماﺅنٹ بیٹن جو پاکستان کا بھی گورنر جنرل تھا، کبھی اس درخواست کو قبول نہ کرتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ کشمیر کے باشندوں کا ریفرنڈم اس وقت ہو جاتا اور ریفرنڈم کے لیے اس وقت کی فضا ہمارے حسب حال تھی۔

4 ۔کیا یہ صحیح ہے کہ شروع میں جناح نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ماﺅنٹ بیٹن ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کا مشترکہ گورنر جنرل ہو گا؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو جناح نے بعد میں خود اپنے آپ کو اس منصب کے لیے کیوں پیش کر دیا؟

جناح کے پرستار کہتے ہیں کہ اسے ماﺅنٹ بیٹن سے حسن ظن نہیں رہا تھا اور اسے اندیشہ تھا کہ یہ شخص پاکستان سے انصاف نہیں کرے گا۔ اس کے برعکس میری رائے ہے کہ جناح کے سامنے صرف اپنی ’بادشاہی‘ کا تصور تھا جو اس کی فطرت کی پستی اور اور اس کے ظرف کی تنگی کی ایک بدترین مثال ہے۔

5 ۔ کیا جناح واقعی اس فریب نفس میں مبتلا تھا کہ 15اگست 1947 ءکے بعد ہندوستان کی تمام بڑی بڑی ریاستیں آزادی و خودمختاری کا اعلان کر دیں گی اور ہندوستان کی حکومت کو ان سے باقاعدہ جنگ کرنا پڑے گی؟ کیا اسی وہم کے ماتحت اس نے یہ رائے دی تھی کہ ہندوستان یا پاکستان سے الحاق کرانے کا اختیار ریاست کے باشندوں کو نہیں بلکہ وہاں کے حکمران کو ہونا چاہیے؟
اگر جناح حقیقتاً اس فریب نفس میں مبتلا تھا تو اس کی کوتاہ نظری پر تعجب ہی نہیں بلکہ ماتم کرنا چاہیے۔ کوپ لینڈ اور بیوری نکسن جیسے انگریزوں نے جو یقینا مسلم لیگ کے حامی تھے ، 1944 ءسے لکھنا شروع کر دیا تھا کہ ہندوستان کی ریاستیں بھی خودمختار نہیں رہ سکتیں۔ انہیں انجام کار اپنے آپ کو ہندوستان میں مدغم کرنا پڑے گا۔

6 ۔ اگر جون 1946 ءمیں جناح کیبنٹ مشن سکیم کو کلیتاً اور غیر مشروط طریقے سے رد کر دیتا تو کیا نتائج پیدا ہوتے؟
اس سوال کا جواب دیتے وقت آپ جون 1946 ءسے جون 1947 ءتک ایک سال کے واقعات کو تفصیلاً اپنے سامنے رکھیں۔
7 ۔ جناح نے جون 1946 ءمیں کیبنٹ مشن سکیم کو غیر مشروط طور پر کیوں قبول کیا حالانکہ وہ دو ہفتے قبل وائسرائے کے نام ایک نجی مکتوب میں اس سکیم کی تمام خرابیاں بالتفصیل بیان کر چکا تھا؟

میری ناچیز رائے ہے کہ جناح کے سامنے اس سکیم کا صرف وہی حصہ تھا جس کا تعلق وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کی تشکیل سے تھا اور جس میں اسے (بزعم خود) کانگرس کے ساتھ مساوات عطا ہو رہی تھی۔ طویل المیعاد سکیم کی اسے قطعا ً پرواہ نہیں تھی۔ بقول شخصے وہ صرف سامنے طشتوں میں رکھی ہوئی مٹھائی کھانا چاہتا تھا۔ حلوائی کی دکان پر جو قسم قسم کی نعمتیں تیار ہو رہی تھیں اسے ان کی چنداں پرواہ نہ تھی۔ کانگرس نے طویل المیعاد سکیم کو قبول اور وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کو رد کر کے جناح کے پاﺅں کے نیچے سے زمین کھینچ لی اور وہ اناڑی پہلوان کی طرح اپنے ہی داﺅ کا شکار ہو کر چاروں شانے چت گر گیا۔

8 ۔ کیاجناح واقعی ”دو قوموں کے نظریے“ کے ماتحت پاکستان حاصل کرنے کا متمنی تھا؟
میری ناچیز رائے ہے کہ وہ اس نظریے کے ماتحت ہرگز پاکستان حاصل کرنے کا متمنی نہیں تھا اور نہ یو پی، بمبئی ، مدراس وغیرہ کے مسلمانوں کے لیے یہ مقصد تھا۔ خلیق الزماں، اسماعیل خان، چندریگر وغیرہ کی قسم کے مقدر آزما لوگوں کے لیے اور خود جناح کے پیش نظر یہ تجویز تھی کہ دو قوموں کا نظریہ ہندو اور انگریز سے تسلیم کرا کے یہ فائدہ اٹھایا جائے کہ ہر صوبے کی وزارت اور مرکزی حکومت میں صرف ان مسلمانوں کو شریک کیا جائے جن کو اسمبلی کے مسلمان ارکان کا اعتماد حاصل ہو۔ بات اصولی طور پر ٹھیک تھی لیکن جناح بدقسمتی سے خود اس دام میں پھنستا چلا گیا جو اس نے بڑی ہوشیاری سے غیروں کے لیے بچھایا تھا۔
9 ۔جناح کا یہ نعرہ تھا کہ ”ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان ایک قوم ہیں۔ ان کو اپنے لیے ایک قومی گھر (National Home ) چاہیے لہٰذا ہمیں پاکستان دیا جائے“۔ اگر جناح کو اس منطق کی صداقت پر اعتماد تھا تو اس نے دس کروڑ مسلمانوں کے رہنے کے لیے قومی گھر کیوں نہ بنایا؟

موجودہ پاکستان میں نو دس کروڑ انسان نہیں سما سکتے اور اگر اسے اس نعرے کی صداقت پر یقین نہیں تو اس نے اقلیت کے صوبوں سے مسلمانوں کو کیوں فریب میں مبتلا کیا؟

10 ۔ اگر مارچ 1947 ءمیں پنجاب میں فسادات نہ شروع ہوتے اور جہلم، راولپنڈی، اٹک ، سرگودھا جھنگ وغیرہ میں سکھوں کا صفایا نہ ہو جاتا اور سکھ مجبوراً (جو کل تک تقسیم پنجاب کے شدید مخالف تھے) خود پٹیل اور ماﺅنٹ بیٹن کے پاس جا کر تقسیم پنجاب کا مطالبہ نہ کرتے تو آئندہ ہندوستان کا نقشہ کیا ہوتا؟

11۔ اگر 1944 ءمیں ملک خضر حیات جناح کا مطالبہ مان لیتا اور یونینسٹ پارٹی اپنی انفرادی اور جداگانہ حیثیت ختم کر کے مسلم لیگ میں مدغم ہو جاتی اور 1946 ءکے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے تمام مسلمان ممبر بغیر کسی جھگڑے اور مقابلے کے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہو جاتے تو آئندہ صورت حال کیا ہوتی؟

اس سوال کا جواب دیتے وقت آپ اس حقیقت کو فراموش نہ کیجئے کہ مارچ 1946 ءسے پہلے پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے (سکندر بلدیو پیکٹ) اس وقت تارا سنگھ کی قیادت میں اکالی صرف کانگرس سے لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں اور سکھوں کا بگاڑ محض اس واقعہ سے شروع ہوا کہ خضر حیات نے مسلم لیگ کے علی الرغم وزارت بنا لی تھی اور سکھ اس میں شریک ہو گئے تھے۔ مسلم لیگ نے 1946 ءکے آخر میں خضر کی وزارت کو ہر ممکن اور ناممکن حربے سے توڑنا چاہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سکھ بھڑک اٹھے اور جب خضر نے مارچ 47 ءکے پہلے ہفتے میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تو تارا سنگھ نے برسرعام شمشیر بے نیام کو ہوا میں لہرا کر پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔

12 ۔ اگر پنجاب تقسیم نہ ہوتا تو کیا پاکستان معرض وجود میں آسکتا تھا ؟ کیا پنجاب کی تقسیم محض فسادات کا نتیجہ نہیں؟ کیا ان فسادات کی ذمہ داری ’بالواسطہ‘ مولانا ابوالکلام آزاد، میاں افتخار الدین اور ملک خضر حیات پر عائد نہیں ہوتی؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو موجودہ پاکستان کا بانی ہم جناح کو کیوں کر قرار دے سکتے ہیں حالانکہ جناح تو جون 1946 ءمیں کیبنٹ مشن سکیم مان کر متحدہ ہندوستان کو قبول کر چکا تھا؟

میری ناچیز رائے ہے کہ پاکستان کا قیام براہ راست پنجاب کے فسادات کا نتیجہ ہے ۔ عین جب فسادات جاری تھے جناح کراچی میں عبداللہ ہارون کے بنگلے پر آرام سے سگریٹ پر سگریٹ پئے جا رہا تھا۔ واقعات کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی اور اسے خود معلوم نہیں تھا کہ حوادث کا یہ شتر بے مہار کہاں جا کر رکے گا۔ یکایک کانگرس نے تقسیم پنجاب اور تقسیم بنگال کا فارمولا پیش کر دیا۔ مسلمانوں کے ہاتھ ان دونوں صوبوں میں خون سے رنگے ہوئے تھے اور (انگریزی محاورے کے مطابق) جناح کے آگے آگ کے شعلے تھے اور پیچھے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ وہ کہا ں جاتا؟ میری رائے ہے کہ جب ماﺅنٹ بیٹن نے کانگرس کی رضامندی سے جناح کو پاکستان پیش کیا اس وقت جناح قطعی طور پر شکست خوردہ انسان تھا۔ ذرا جون 1940 ء(شملہ کانفرنس) کے جناح کا مقابلہ جون 47 ءکے جناح سے تو کیجئے۔

13جولائی 1946 ءمیں جب جناح نے ویول کے ہاتھوں شکست  کھا کر ڈائریکٹ ایکشن کا نعرہ بلند کیا تو ڈائریکٹ ایکشن سے اس کی کیا مراد تھی؟ کیا سہروردی نے ڈائریکٹ ایکشن کی آڑ لے کر جو کچھ کلکتہ میں کیا وہ جناح کے ایما سے ہوا تھا؟
خط طویل ہوتا جا رہا ہے لیکن میں اپنے دل کے خونچکاں گوشے آپ کے سامنے بے نقاب کر سکتا ہوں۔

سماعِ دُرد کشاں، صوفیاں چہ می دانند
ز شیوہ ہائے سَمندر، سپند را چہ خبر

آپ نے مختلف سیاسی موضوعات پر انقلاب سے ہزاروں صفحے سیاہ کیے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کسی روز معمولی سی فرصت میں ان استفسارات کا جواب باآسانی لکھ بھیجیں گے۔

میں نے پنجاب لٹریری لیگ کے سیکرٹری صاحب کو لکھ دیا تھا کہ وہ میرے بعض تاریخی مضامین کا مجموعہ شائع کرنے سے پہلے مسودہ آپ کو بھیج دیں تاکہ آپ ایک نظر دیکھ کر اور ضروری ترمیم و اصلاح کر کے کتاب پر ایک موزوں مقدمہ بھی لکھیں۔ خدا جانے وہ مسودہ آپ کے پاس پہنچا یا نہیں۔ یہ مضامین بہت مختصر ہیں اور محض چراغ حسن حسرت اور دوسرے احباب کے ارشاد کی تعمیل میں وقتا ً فوقتا ً اخبارات کے لیے جلدی میں لکھے گئے ہیں۔ ان میں خامیاں بھی ہیں جن کی اصلاح کا مجھے موقع نہیں ملا اور آپ اگر مقدمہ لکھیں تو بے شک اس چیز کا ذکر کر دیں۔ تاہم اگر آپ نے مسودہ ایک بار ملاحظہ فرما لیا تو مجھے یقین ہے کہ اس سے بہت سے نقائص رفع ہو جائیں گے۔
آپ آج کل کیا کر رہے ہیں۔ خانہ نشینی کے اوقات میں اضافہ ہو رہا ہے یا کچھ تخفیف بھی ہو گی؟ یقین کیجئے لاہور اپنی ذلت و رسوائی کے باوجود اکثر یاد آتا ہے۔ ریاض خیر آبادی کے ایک شعر میں کسی قدر تصرف کر کے یوں پڑھتا ہوں۔

وہ گلیاں یاد آتی ہیں جوانی جن میں کھوئی ہے
بڑی حسرت سے لب پہ قصہ لاہور آتا ہے (بڑی حسرت سے لب پہ ذکر گورکھپور آتا ہے)

خدا آپ کا حافظ و ناصر ہو اور اس کی مشیت آپ کی دستگیری کرے۔

عاشق حسین بٹالوی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments