استاد محترم کی گمشدہ پینٹ اور عظیم لیڈر کی وفات


دوپہر ہونے کو آئی تھی اور ہم سوئے پڑے تھے۔ ٹیلی فون چپ ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔ نیند میں ہی اٹھایا تو استاد محترم کی آواز آئی کہ یار جلدی سے گھر جا، میری پینٹ لے کے آ۔ نیند میں تھا اس لئے وجہ سمجھ نہ آئی کہ استاد محترم آج بریکنگ نیوز دینے پینٹ پہنے بغیر کیسے دفتر پہنچ گئے ہیں۔ الہی رحم، ایسی کون سی خبر ہے جو یوں جذباتی ہو کر چلانے نکلے ہیں ہمارے استاد محترم۔

ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ استاد اپنی آئی پر آ گئے اور لگے دھمکانے کہ ابے اٹھے گا کہ نہیں یا ننگا ہی پھروں۔

یا حیرت معاملہ سیریس ہے۔ نعرے لگاتا بھاگا، منہ دھویا کہ نہیں کچھ یاد نہیں۔ اندھا دھند استاد محترم کے گھر پہنچا۔ استاد محترم کی پینٹ دی جائے کا مطالبہ کیا۔ گھر والوں نے رونا شروع کر دیا کہ استاد گزر گئے ہیں۔ بڑی مشکل سے صورتحال قابو کی کہ اگر خدانخواستہ گزر بھی گئے ہوں تو اب رب کے حضور پینٹ پہن کر بھی گئے تو کون سا بخشے جائیں گے۔ کسی نہ کسی طرح استاد محترم کی پینٹ شرٹ حاصل کی۔ اب اگلا مشن استاد کو ڈھونڈنا تھا۔

طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے کہ استاد بابا نانگا بنے پھر رہے ہوں گے، اردگرد ہجوم ہو گا جو تعویذ لکھوا رہا ہوگا۔ یہی سوچتے استاد کو فون کیا تو استاد نے بتا دیا کہ وہ کدھر ہیں۔ ان کے بتائے ہوئے مقام پر جا کے ابھی پارک بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک رکشہ آ کر ساتھ کھڑا ہو گیا۔ اس میں سے استاد نے سر نکال کر کہا ابے نکل گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول۔

پچھلا دروازہ کھولا اس کے بعد ان گناہگار آنکھوں سے ایک انسان کو اڑتے دیکھا کہ کیسے رکشے سے پرواز کرتے ہوئے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لینڈ ہوا۔ پرانی پینٹ استاد کے ہاتھ میں تھی اور وہ خود کچھے قمیض میں نہایت دانشور لگ رہے تھے۔ استاد نے حکم دیا چل گاڑی چلا، ساتھ ہی بولا کہ اب پیچھے نہیں دیکھنا۔ گاڑی کے پچھلے حصے میں پتہ نہیں کیا ہوتا رہا۔ جس طرح گاڑی چلتے میں ڈول رہی تھی ضرور چھاپا پڑتا۔ شکر ہے کہ پولیس موبائل کوئی روڈ سے نہ گزری اس دوران۔

ہلچل بند ہوئی تو گاڑی روکی۔ استاد اتر کر آگے بیٹھے۔ سگریٹ نکال کر انہوں نے ایک اطمینان بخش کش لگایا۔ ان سے پوچھا کیا ہوا تھا۔ بولے کچھ نہیں ایمرجنسی تھی گھر سے نکل کر جلدی سے رکشے میں بیٹھا تو پینٹ پھٹ گئی۔ بس پھر اسی رکشے میں پھرتا تمھارا انتظار کرتا رہا۔ ایک دم سے استاد کو یاد آیا کہ ایمرجنسی تھی۔ کہا بھاگو دفتر پہنچو۔ لیڈر کا انتقال ہو گیا ہے۔

پوچھا کون لیڈر مر گیا بولے عظیم لیڈر مر گیا، کیسے کب کہنے لگے پتہ نہیں دوسرے چینل پر ٹکر چلا تھا ہمارے والوں نے بھی خبر چلا دی۔ استاد محترم کو بتایا کہ لیڈر کوئی نہیں مرا تھا۔ وہ میرے ہم جماعت بیورو چیف نے ویسے ہی اندازہ لگایا تھا کہ لیڈر کی صحت ٹھیک نہیں ہو نہ ہو یہ کچھ گھنٹوں میں گزر جائے گا تو وہ ٹکر چلا کر گھر چلا گیا چھٹی پر کہ بریکنگ نیوز کا کریڈٹ مل جائے گا ترقی شرقی ہو جاوے گی۔

اس ہوائی ٹکر کو استاد محترم کے چینل نے بار بار بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا تھا۔ دفتر پہنچے تو استاد کے بعد دفتر کے وڈے نکے (ڈپٹی) بری طرح پھنٹر ہوئے بیٹھے تھے۔ دفتر بھی کافی بے ترتیب سا تھا کمپیوٹر فرش پر پڑے تھے۔ سارا عملہ بیٹھا اپنی ٹکور کر رہا تھا۔ استاد نے پوچھا کہ کی ہویا؟ استاد کو بتایا گیا کہ کچھ نہیں۔ بس لیڈر کیونکہ زندہ ہیں تو ان کی پارٹی کے کارکن ہماری خبر کی داد دینے آئے تھے۔

پھر تفصیل سے بڑے حوصلے سے ہندکو پشتو میں مکس آوازیں سنیں منگ خر قدرا وال اوخوڑ یعنی ہم نے کسی کھوتے کی طرح کٹ کھائی ہے۔ ایک پشوری لالہ بولا یار ہٹ ای نہیں رئے سن پہلے کٹاس وت سٹاس وت کٹاس یعنی رک ہی نہیں رہے تھے پہلے گرایا پھر مارا پھر اٹھایا پھر مارا وغیرہ وغیرہ۔

استاد نے ساری صورتحال تسلی سے سنی۔ ہیڈ کوارٹر فون کر کے احتجاج کیا کہ دوسرے چینل کے ٹکر پر بریکنگ نیوز کیوں چلائی۔ اس کے بعد ٹکر چلانے والے میرے ہم جماعت کو فون کر کے اس کی بلے بلے کی وہ بیچارہ پہلے ہی روپوش ہو چکا تھا۔ صورت حال کا اندازہ لگا کر۔ یہ سب کر کے بھی تسلی نہ ہوئی تو استاد نے مڑ کر کہا کہ جیسے تم ویسے تمھارے ہم جماعت، میری نیکی یوں آرام سے دریا میں ڈال کر مجھے اپنے دفتر کے کٹ کھائے ہوئے معززین کے نشانے پر کر دیا۔

ظالموں نے کافی حسن سلوک کیا پھر ہم سے بھی۔ خیر جانے دیں، یہ باتیں، جھوٹی باتیں ہیں ہم نے خود ہی بنائی ہیں۔ کہنا بس اتنا ہے کہ ٹوٹے جوڑ کر بنائی گئی یہ کہانی جھوٹی ہی سمجھی جائے بس دعا یہ ہے کہ استاد نہ پڑھ لے وہ بھی نہ پڑھے جس کو کٹیا گیا تھا۔ ہر پڑھنے والے سے التماس ہے کہ وہ فاضل مصنف کے لئے دعائے عافیت کرے۔

یہ سب یاد یوں آیا کہ بھائی کے ناراض ہو کر فوت ہو جانے کی خبریں لگاتار سنائی جا رہی تھیں کچھ دن سے۔ ان خبروں سے بور ہو کر آخر بھائی کو سامنے آ کر بیان دینا پڑا۔ حالانکہ بھائی آج کل اپنے کمالے کا غم منا رہا ہے۔ بھائی تو خیر بھائی ہے اس کا بڑا دل ہے اس کے کارکنوں کو کیا ہوا میڈیا کے کھنے سینکنے میں اتنی سستی۔

بھائی یہ آپ کے چریے ایسے ہی سستی کریں گے تو میڈیا کی تربیت آخر کیسے ہو گی بھائی۔ ان میڈیا والوں کو فلسفہ محبت ذرا ڈیزائن بنا کر پریکٹیکل کر کے سمجھانے کا انتظام کروا دو بھائی۔ Mar 11,2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments