بے نظیر بھٹو کے ساتھ عدالت اور چھاؤنی نے نا انصافی کی


لیاقت علی خان کے قتل میں جو کردار ایس پی نجف خان کا تھا، بے نظیر قتل میں خرم شہزاد اور سعود عزیز کا ہے۔ لیاقت علی خان کے قتل میں اور محترمہ کے قتل میں ایک قدر مشترک یہ ہے اس وقت نجف خان کو اور بے نظیر قتل کیس کے اہم مجرموں خرم شہزاد اور سعود عزیز کو قانون کے تقاضوں سے بچایا گیا۔ اتفاق یہ بھی ہے کہ دونوں اہم لیڈروں کے قتل کے واقعات میں ورثاء نے انصاف کے حصول کو اتنی اہمیت نہ دی بلکہ زرداری صاحب نے اس قتل کو پاور گیم کے طور پر استعمال کیا اور دوران حکومت کیس کی تفتیش کو بھی اہمیت نہ دی اور نہ ہی حکومتی ٹیم کی معاونت کی جبکہ سکارٹ لینڈ یارڈ کو 12 ارب روپے دئیے گئے جو سرکاری خزانے سے رقم ادا کی گئ اور پوری قوم نے گلہ تک نہ کیا کہ اتنی مہنگی تحقیققات کیوں کروائی جا رہی ہیں۔ ساری قوم کی خواہش تھی کہ اصل قاتلوں تک پنچا جا سکے اور اس مائینڈ سیٹ کو سزا دی جا سکے جس نے قومی قیادت کو دن دیہاڑے قتل کیا ہے لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ سکارٹ لینڈ یارڈ بھی سچ بتائے بغیر چلا گیا اور ہم سادہ دلوں کو یہ فیصلہ ملا کہ دو پولیس افسر خرم شہزاد اور سعود عزیزقتل کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں سترہ سترہ سال کی سزا سنا دی گئی ہے اور مشرف مفرور ہے۔ اسے واپس لانے میں ریاست کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بس نام کی حد تک فیصلے میں یاد رکھا گیا ۔

اب دونوں افسروں خرم شہزاد اور سعود عزیزکی ضمانتیں ہو گئ ہیں اور وہ اپنی مزدوری پہ واپس چلے بھی گئے ہیں۔ پی پی قیادت نے بچگانہ سا چاند کھیلنے کو مانگا کہ خرم شہزاد کو پنڈی کیوں لگایا گیا ہے۔ اچھا اگر اسے ڈیرہ اللہ یار کوئٹہ ہی لگا دیتے تو قتل کے فیصلے پہ کیا فرق پڑتا ۔ اتنی بڑی قومی لیڈر کے قتل کا انصاف ایک تماشہ بن چکا ہے۔ جن لوگوں کو پارٹی کے اندر آوازاٹھانی چاہیے تھی ان کا اپنا مسلہ یہ ہے کہ ان کی اولادیں جوان ہو چکی ہیں اگلے انتخاب میں ٹکٹوں کے امیدوار ہیں ان کے مستقبل کے لیے سوچ بچار ہو رہی ہے انہیں کیا ضرورت اپنے لیے جماعت میں مخالفتیں پیدا کریں۔ اس لیے ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں یعنی جو بات زرداری صاحب فرما رہے وہ ہی درست ہے، چاہے کل طبعی موت ہی کیوں نہ کہہ دیں سب یک زبان ہو کر ساتھ ہو جائیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی قاتل مشرف آمریت اور مضبوط شدت پسند گروہ تھے جبک قتل کا فائدہ براہ راست آمریت کے ادارے اور آصف زرداری صاحب کو ہوا ہے جان برائن کے قانون کے مطابق قتل سے فائدہ پہنچنے والوں کو بھی شامل تفتیش کرنا چاہیے آمریت کو یہ فائدہ ملا کہ جمہوری قائد کو راستے سے ہٹا کر میثاق جمہوریت کا گلہ گھونٹ دیا گیا اور زرداری صاحب کو یہ فائدہ ہوا کہ پارٹی صدر اور ملک کے صدر کا عہدہ نصیب ہوا ۔

مشرف آمریت اور آصف زرداری اور غیر جمہوری قوتوں کوجب تک عدالت کٹہرے میں کھڑا نہیں کرے گی، انصاف کا حصول ناممکن ہے لیکن یہ اس صورت ممکن ہو گا جب عدالت پر سے چھاونی کا سایہ ہتایا جائے گا۔ یاد رہے کہ طالب علم مسلم لیگ ن کا ورکر ہے اور اس قتل پہ بیسویں تحریر لکھ رہا ہے اور آئندہ بھی لکھتا رہے گا جب تک شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو کو انصاف نہیں مل جاتا۔ بے نظیر بھٹو ساری سیاسی برادری کا اثاثہ تھیں۔

اسی کا شہر وہی قاتل وہی منصف وہی مدعی

مجھے معلوم تھا جرم میرا ہی نکلے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).