چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبا ل اپوزیشن اور حکمرانوں کے لیے بے ضرر


جسٹس جاوید اقبال پاکستان کی سپریم کورٹ سے اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے تو انہیں مسنگ پرسنز کمیشن، اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور امریکا کی کارروائی کی تحقیقات کرنے کے لیے بننے والے کمیشن کی سربراہی انہیں سونپی جا چکی ہے، مسنگ پرسنز کا معاملہ ابھی لٹکا ہوا ہے جب کہ اسامہ بن لادن کی امریکی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کی رپورٹ انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو پیش کردی تھی مگر پاکستان کے عوام آج تک اس رپورٹ کے مندرجات سے بے خبر ہیں، پتہ نہیں رپورٹ کب شائع ہوگی یا ہوگی بھی نہیں۔

جسٹس جاوید اقبال کو 2000 میں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا مگر انہیں یہاں کام نہیں کرنے دیا گیا اور دو مہینے بعد ہی جسٹس جاوید اقبال کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔ اور وہیں سے 2011 میں ریٹائرڈ ہوئے، لیکن وہ کہتے ہیں ناں جس پر قدرت مہربان ہو اسے گھر کون بٹھا سکتا ہے، یہی کچھ جسٹس جاوید اقبال کے ساتھ ہوا اوپر بتائے گئے معاملات کے لیے حکمرانوں کی نظر انتخاب اسے گوہر نایاب پر پڑی۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال بڑے دھیمے مزاج کی شخصیت ہیں، اپنے فرائض کی ادائیگی کی انجام دہی کے لیے میڈیا میں ان رہنے اور بری بڑی شہ سرخیاں لگانے کا خبط کبھی بھی ان کے سر پر سوار نہیں ہوا۔ گو لاپتہ افراد کا کھوج لگانے میں سرگرم تنظیمیں مسنگ پرسنز کمیشن کے حوالے سے ان سے نالاں رہیں ہیں اور ابھی بھی ہیں۔ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ ان کے چیئر مین نیب تعینات ہونے سے مسنگ پرسنز کمیشن کا کیا بنے ہوگا۔

جسٹس جاوید اقبال مردم شناس وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر چلنے والے انسان ہیں، حالات کا صحیح ادراک رکھتے ہیں اور جب بھی انہیں ملک و قوم کی خدمت کرنے بارے ذمہ داریاں تفویض ہونے لگیں تو انہوں نے’’ ہمیشہ ملک و قوم‘‘ کے مفادات کو ترجیح دی ہے، گو ان خدمات کے عوض انہیں مالی منفعت حاصل ہوئی لیکن وہ وطن عزیز اور اداروں سے محبت کرتے ہیں ان کی خواہش رہی ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہ کر اپنے فرائض ادا کریں۔

بظاہر تو اپوزیشن لیڈر سید خورژید احمد شاہ اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بطور چیئرمین نیب ان کی تقرری کا فیصلہ کیا ہے لیکن اندرون خانہ یہ کام دبئی اور لندن میں مقیم سیاسی قیادت کا یہ کارنامہ ہے۔ اپوزیشن لیڈر اتنا با اختیار ہے کہ وہ آصف علی زرداری سے پوچھے بنا کوئی حتمی فیصلہ لے لے اور نہ ہی شاہد خاقان عباسی میں اتنی اخلاقی جرات و ہمت ہے کہ وہ اپنے طور پر( لندن) سے منظوری لیے بغیر جسٹس جاوید اقبال کے نام کے نوٹیفیکیشن کا اجرا کرے۔

پہلے تو صرف الطاف حسین ایم کیو ایم کے فیصلے لندن سے صادر فرمایا کرتے تھے، لندن سے گھنٹوں کے براہ راست خطاب کے ذریعہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کو دو زانو بٹھا کے امتحان سے دوچار کیا کرتے تھے، اب نواز شریف لندن سے فیصلے نازل کیا کریں گے اور لیگی راہنما ملاقات کے لیے لندن کا سفر اختیار کیا کریں گے اور آصف علی زرداری دبئی سے پارٹی کنٹرول کرتے ہیں اور سندھ کے وزیر اعلی سمیت سندھ کی پوری کابینہ دبئی میں بیٹھک کرتی رہی ہے اور اب بھی ہونے کے امکانات بدرجہ اتم موجود ہیں۔

توقع ہے کہ جسٹس جاوید اقبال کسی کو ناراض یا مایوس نہیں کریں گے۔ بہرحال جسٹس جاوید اقبال کے بطور نیب چیئر مین اتفاق اور نوٹیفیکیشن کا اجراء کرکے حکومت( مسلم لیگ نواز) اور اپوزیشن (پیپلز پارٹی) نے طاقت ور اداروں سپریم کورٹ اور راول پنڈی میں طاقت کے مرکز کو ناراض کرنے کی نوبت نہیں آنے دی، اب آگےآنے والے ایام میں بطور چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی ذمہ داریوں کے سفر کا آغاز ہوگا اور ان کی آزمائش کابھی وقتآغاز ہوگا۔

جسٹس جاوید اقبال کی سابقہ زندگی اور طرز ادائیگی فرائض کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ نئے چیئرمین نیب اپنے پیشرو چودھری قمرالزماں سے قطعا مختلف ثابت نہیں ہوں گے، جیسے قمرالزمان چودہری نے حکمرانوں کے لیے مسائل و مشکلات پیدا نہیں کیے ایسے ہی نئے چیئرمین اپوزیشن اور حکومت(جو بھی ہوگی) کے لیے بے ضرر رہیں گے، ڈان لیکس کی ان کوائری کمیشن کی سربراہی کے لیے جسٹس ریٹائرڈ عامر اے رضا خان کو تلاش کر لانا ایسے ہی نہیں تھا۔ اس نے ڈان ان کوائری کمیشن کی سربراہی سونپے جانے کے مقاصد کو پوارا پورا نبھایا ہے، ایسے ہی سانحہ ایبٹ آباد کی تحقیقاتی رپورٹ نے کوئی تہلکہ نہیں مچایا ایسے ہی نیب کا مستقبل دکھائی دیتا ہے۔

کیونکہ وہ چشم بینا رکھتے ہیں اور ایک حالات کا ادراک رکھنے کی صلاحیتیوں سے مالا مال بھی ہیں، آگے اللہ بہتر جاننے والا حکمت و دانائی والا ہے۔ کل کیا ہونے والا ہے اس کا جاننے والا صرف اللہ تعالی ہے ہم تو اپنی گناہ گار آنکھوں سے جو دیکھتے ہیں اپنی ناقص عقل سے جو سمجھتے ہیں اور جو اپنی سمجھ بوجھ میں آتا ہے وہ لکھ دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).