پاکستان اور ترکمانستان کے رشتے


گزشتہ دو تین ہفتوں سے ملکی سیاست میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں ۔ وزیراعظم کا دورہ امریکہ اور اقوام متحدہ میں کھلی ڈُلی تقریر، وزیرخارجہ خواجہ آصف تو امریکہ کو آئینہ ہی نہیں دکھا رہے بلکہ لگتا ہے ان کا بس چلے تو ٹرمپ کو گردن سے پکڑ کرایسا سیالکوٹی داو لگائیں کہ وہ کئی برس تک اپنی گردن ہی سہلاتا پھرے ۔ ابھی یہ کیا کم تھا کہ ریٹائرڈ کپتان بھی جہاد کے لئے خم ٹھونک کر میدان میں آگیا ہے ۔ لیکن طبیعت ابھی اس پر لکھنے کی طرف مائل نہیں ۔گزشتہ دو کالم دورہ ترکمانستان سے متعلق تھے جسے دوستوں نے بہت پسند کیا اور اصرار بھی کیا کہ اس کے متعلق مزید لکھیں ۔ ترکمانستان کے ساتھ پاکستان کے تاریخی رشتے اور بہت سے حقائق ایسے ہیں جو قارئین کے لئے بھی دلچسپی کے حامل ہیں ،اس لئے آج بھی ترکمانستان کے بارے میں ہی کچھ عرض کرتا ہوں ۔
جن لوگوں نے اقبال کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ جب سوویت یونین کے ٹینک ترکمانستان کے معصوم عوام خصوصا بچوں اور خواتین کو اپنے آہنی پہیوں تلے کچل رہے تھے تو علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔۔۔۔
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمنِ سخت کوش


ترکمانستان کے لوگ بہت قوم پرست اور اپنی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں لیکن سوویت یونین کے دور کو انہوں نے اپنی تاریخ سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے کہ وہ اس کا ذکر بھی پسند نہیں کرتے ۔ اُغوز خان (oguz khan)کو ترکمانستان میں انتہائی باعزت مقام حاصل ہے ۔ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ اُغوزخان حضرت نوح علیہ اسلام کے پوتے تھے ۔ ترکمانستان اورپاکستان کی تاریخ میںمذہب،ثقافت اور روحانیت سمیت بہت کچھ مشترکہ ہے، یہاں تک کہ اردو اور ترکمن زبان میں آٹھ ہزار الفاظ بھی مشترک ہیں جو ایک حیرت انگیز حقیقت ہے ۔ اردو اور ترکمن زبان کی دو لغات بھی ترتیب دی گئی تھیں لیکن بدقسمتی سے ان کی اشاعت کا سلسلہ برقرار نہیں رکھا جاسکا ۔

تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ سلجوقی خاندان اورخوارزم خاندان اور تاریخ میں ان کے چھوڑے گئے نقوش کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ان دونوں خاندانوں کا تعلق بھی ترکمانستان سے ہے ۔ پاکستان کی بحریہ میں تو ایک جہاز (پی این ایس طغرل ) بھی سلجوقی بادشاہ طغرل کے نام سے منسوب ہے ۔ محمود غزنوی کو پاکستان میں آج بھی ایک ہیرو کی حیثیت حاصل ہے ،ترکمانستان کے تاریخ دانوں کے مطابق غزنوی خاندان نسلی طور پر ترکمن ہے ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سیہون میں محو استراحت عظیم روحانی ہستی حضرت لعل شہباز قلندرؒ ؒآذربائیجان میں پیدا ہوئے لیکن انہوں نے جس علاقے میں تعلیم حاصل کی آج وہ ترکمانستان کا حصہ ہے ۔

ترکمانستان کے دارلحکومت اشک آباد کے قریب پارتھیا کا علاقہ قدیم تہذیب کا گہوارہ ہے ،پارتھیا کی تہذیب وتمدن کا جائزہ لیا جائے تو اس قدر مشترکات ہیں کہ اس پر گندھارا تہذیب کا گمان ہوتا ہے ۔مدینة الاولیا میں کی جانے والی کاشی کاری آپ کو اشک آباد کی دکانوں میں بھی نظرآئے گی ۔ کراچی میں رفیق سنٹر میں ہاتھ سے بنے ہوئے قالینوں کی ایک بڑی مارکیٹ ہے ۔ اس مارکیٹ کے تاجروں کی ترکمانستان میں رشتہ داریاں آج بھی قائم ہیں ۔ترکمن نسل سے تعلق رکھنے والے پاکستانی عبدالغفور خدابردی ہرسال چالیس ہزار مربع فٹ ہاتھ سے بنے ہوئے قالین ترکمانستان سے پاکستان منگواتے ہیں ۔

آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ بابائے قوم کے مزار کا ڈیزائن ترکمانستان کے شہر ”مرو“ میں موجود سلطان سنجر کے مزار سے بہت زیادہ ملتا جلتا ہے ، دیکھنے سے لگتا ہے جیسے اسی ڈیزائن میں معمولی تبدیلی کے بعد قائد اعظم کا مزارتعمیر کیا گیا ہے ۔قائد اعظم وہ واحد غیر ملکی ہیرو ہیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کی تصویر ترکمانستان میں ڈاک ٹکٹ پر شائع کی گئی یہ دونوں ملکوں کی طرف سے ایک دوسرے کے لئے خیر سگالی کا اظہار تھا کیونکہ پاکستان نے بھی ترکمانستان کے بانی صدر ”سفر مراد نیازوف “ کی تصویر ڈاک ٹکٹ پر شائع کی تھی ۔ صدر سفر مراد نیازوف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ اس بات کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا لیں کہ جنرل مشرف جب ترکمانستان کے دورے پر گئے تو صدر نیازوف دارالحکومت سے ساٹھ کلومیٹر کی دوری پر موجود مسجد دکھانے کے لئے جنرل مشرف کو خود گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے لے کر گئے تھے ۔

ترکمانستان کا شہر مرو ایک دور میں طویل عرصے تک اسلامی دنیا کا مرکز رہا ہے اور ترکمانستان میں آج بھی یہ کہاوت مشہور ہے کہ ” مرو دنیا کا بادشا ہ ہے“۔ معروف صحابی حضرت اسلم بریدہ ؓ کا مزار بھی مرو میں ہی مرجع خلائق ہے ۔ ترکمانستان میں حضرت اسلم برید ہ ؓ”بابابریدہ “ کے نام سے مشہور ہیں ۔ مرو میں ہی خواجہ یوسف ہمدانی ؒ کا مزار بھی مرجع خلائق ہے ،خواجہ یوسف ہمدانی ؒاپنے عہد کے بے مثال صوفی خواجہ احمد یساویؒ کے دادا مرشد تھے اوربھارت کے شہر پانی پت میں مدفون بزرگ شمس الدین ترکؒخواجہ احمد یساویؒ کے صاحبزادے ہیں۔ خواجہ یوسف ہمدانی ؒ کے مریدوں میں سے ہی ایک مرید حضرت خواجہ بہاالدین نقشبند تھے جنہوں نے روحانیت کے مشہور سلسلہ نقشبندیہ کی بنیاد رکھی ، یہ سلسلہ برصغیر پاک وہند میں آج بھی مقبول ہے ۔ معروف روحانی شخصیت شیخ نجم الدین کبریٰ ؒکا مزار بھی ترکمانستان کے شہر داشوغوز میں ہی مرجع خلائق ہے ۔ ترکمانستان میں ہی ایران کی سرحد کے قریب ”ماری “نامی علاقے میں امیر المومنین حضرت علی ؓ کے غلام حضرت قمبر ؒ کا مزار شریف ہے ۔

ابونصر فارابی مسلم دنیا کے ایک عظیم سائنسدان ہیں ، ان کا تعلق بھی ترکمانستان میں ہی ازبکستان کی سرحد کے قریب فاراب نامی علاقے سے تھا۔ عمرخیام کوہم رہتی دنیا تک نہیں بھول سکتے کیونکہ ہم آج جو کیلنڈر استعمال کرتے ہیں وہ اسی سائنسدان کی مرو میں موجود لیبارٹری میں کی گئی تحقیق کا نتیجہ ہے ۔ریاضی کو سائنس کی ماں کہا جاتا ہے اور اگرریاضی میں سے صفر کا ہندسہ نکال دیں تو پوراعلم ریاضی دھڑام سے نیچے آ گرے گا۔ ریاضی میں صفر کا تصور دینے والے موسی الخوارزمی بھی ترکمانستان اور ازبکستان کے سرحدی علاقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ابن سینا جیسا سائنسدان شائد دنیا دوبارہ پیدا نہ کر سکے ۔ ابن سینا نے بھی ترکمانستان کی درس گاہوں سے ہی علم حاصل کیا اورپھر دنیا کی تاریخ پر اپنے نام کو انمٹ سیاہی سے نقش کردیا۔

دونوں ملکوں کے کلچر میں بھی اتنی مماثلت ہے کہ پاکستان کے صحرائے چولستان اور ترکمانستان کے دیہات میں شادی کی رسومات تک تقریباََ ایک جیسی ہیں ۔ الغرض دونوں ملکوں میں اس قدر مشترکات موجود ہیں کہ خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے یہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ آج بھی دونوں ملک اگر مشترکہ منصوبے شروع کریں تو ان کا مستقبل بہت تابناک ہوسکتا ہے ۔دونوں ملک اس کے لئے پرعزم بھی ہیں ۔ پاکستان کو اپنی معیشت کی ترقی و خوشحالی کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ ترکمانستان کے پاس وافر مقدار میں موجود ہیں اور ترکمانستان کو اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے جن ہنرمند اور ماہر افرادی قوت کی ضرورت ہے پاکستان اسے بخوبی پوراکرسکتا ہے ۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان افغانستان حائل ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان میں برسوں سے جاری بدامنی ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان حائل اس ملک میں بدامنی نہ صرف پورے خطے بلکہ دنیا کے لئے ایک عرصے سے درد سر بنی ہوئی ہے ۔ اگر افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو پاکستان کی ترکمانستان تک رسائی بہت آسان ہو جائے گی اور پھر وسط ایشیاکے دوسرے ملکوں اور پاکستان میں باہمی تجارت اور سیاحت کے بے شمار دروا ہوجائیں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).