روحانی جمہوریت یا جمہوری تماشا؟


علامہ اقبال نے جہاں مروجہ جمہوریت کو جمہوری تماشا سے تعبیر کیا ہے وہاں سچے اور کھرے جمہوری نظام کو روحانی جمہوریت کا عنوان بخشا ہے۔ پاکستان میں ہماری سیاست دائرے میں گردش کرتی چلی آ رہی ہے- ہرچند برس بعد ہم گھوم پھر کر اُسی مقام پر آ پہنچتے ہیں جہاں سے چلے تھے- اس لاحاصل پاکوبی کا سب سے بڑا سبب خود ہمارے اپنے بالادست طبقات ہیں- جب تک اقتدار ان طبقات کے مخصوص مفادات کے نگہبانوں کی گرفت میں رہے گا، عوام کے دیدہ و دل کی نجات کی گھڑی مسلسل دور سے دور ہوتی چلی جائے گی- اقبال نے سچ کہا تھا:

مجلسِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو

ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

دین اور سیاست کے جدا ہونے کا مطلب ہے سیاسی عمل کی اخلاقی اور روحانی اصول و اقدار سے روگردانی- جب تک سیاست کو اخلاقی اور روحانی اصولوں کے تابع نہ کر دیا جائے گا اُس وقت تک کتابوں سے اخذ کیا گیا اچھے سے اچھا سیاسی نظام بھی ہماری زندگی کو ہمہ گیر ویرانی سے نجات نہیں دلا سکتا- جب تک تن پرستی اور جاہ مستی کی شیطانی اقدار ہی ہمارے ہاں سیاسی عمل کا جلی عنوان بنی رہیں گی اُس وقت تک ہر نظامِ سیاست، چاہے وہ پارلیمانی ہو یا صدارتی فوجی آمریت ہو یا سویلین فسطائیت، ناکام اور رُسوا ہی ہوتا رہے گا-

عوام نظامِ زندگی میں بامعنی تبدیلیاں چاہتے ہیں- وہ تبدیلیاں جو تحریکِ پاکستان کے پرچم پر مرقوم تھیں مگر ہمارا حکمران طبقہ اُن بنیادی تبدیلیوں سے ڈرتا چلا آ رہا ہے- یہ تبدیلیاں ہماری اجتماعی ہستی کی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہیں- حکمران طبقے نے تبدیلی کے عمل کو روکنے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر رکھا ہے- یہ طریقہ فقط انتظامی تبدیلی سے عبارت ہے- جب لوگ ایک نظامِ حکومت کے بنجر پن سے باغی ہونے لگتے ہیں تو یہ طبقہ ایک دوسرا نظام لا کر یہ جھوٹا تاثر دینے لگتا ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے- جب لوگ اس نظام سے اُکتا جاتے ہیں تو پھر وہی پُرانا نظام نیا قرار دے دیا جاتا ہے- ہمارے ہاں حقیقی تبدیلی کے عمل کو روکنے کا یہ نسخہ بار بار آزمایا جا چکا ہے-

ہماری زندگی اور ہماری سیاست پر ظالم طبقوں کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ گذشتہ نصف صدی کے دوران وقتاً فوقتاً رونما ہونے والی زرعی اصلاحات پر ابھی تک مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا- جاگیرداروں اور وڈیروں سے اصولا چھینی گئی لاکھوں ایکڑ اراضی ابھی تک عملاً انھی کے قبضہءقدرت میں موجود ہے- اسی طرح ربع صدی پیشتر وجود میں آنے والا سرداری نظام کی تنسیخ کا قانون System of Sardar (Abolition) Act, 1976 آج تک اپنے عملی نفاذ کو ترس رہا ہے۔ صدر جنرل ضیاءالحق نے مسندِ اقتدار پر بیٹھتے ہی بلوچ سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے کی خاطر اِس قانون پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ آج تک کسی نے بھی رکاوٹ کو دُور کرنا مناسب نہیں سمجھا۔اس لیے کہ ہر حکمران کواپنا اقتدار قائم رکھنے کی خاطر سرداروں کی خوشنودی عزیز ہے۔

ہمارے دین اور ہمارے آئین ہر دو سے متصادم سرداری اور جاگیرداری نظام کے عملًا و قائم رہنے کے نقصانات بے پناہ ہیں- میں فی الحال اس ضمن میں فقط دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا کافی سمجھتا ہوں- پہلی بات یہ کہ جو نظام قانونی طور پر کالعدم قرار دیا جا چکا ہو اُس کا غیر قانونی طور پر باقی رہنا قومی وقار کے سراسر منافی اور ریاستی وحدت کے لیے بے حد خطرناک ہوتا ہے- دوسری بات یہ کہ اب پاکستان میں سرداری اور جاگیرداری نظاموں کی پروردہ سیاست کے زہریلے اثرات دائرہءامکان سے نکل کر حقیقی خطرات کا روپ دھارے چکے ہیں- یہ خطرات اب سردار عطاءاللہ مینگل، سردار ممتاز علی بھٹو اور اُن کے ہمنواﺅں کی سیاسی تحریک کے منشور میں ڈھل چکے ہیں-

جب 14 1947ء کو ہم پاکستان میں داخل ہوئے تھے یا ہم میں سے کچھ لوگ یہیں بیٹھے بیٹھے برطانوی ہند سے نکل کر آزاد اور خود مختار پاکستان میں آ وارد ہوئے تھے تو ہم ایک متحدہ مسلمان قوم کی حیثیت سے اپنے قومی وطن میں داخل ہوئے تھے- اُس وقت ہم ایک قوم تھے مگر آج چند قبائلی سردار اور جاگیردار متحدہ پاکستانی قومیت کے تصور کی علی الاعلان تردید کرتے پھرتے ہیں- اُن کا سیاسی منشور اس جھوٹ سے عبارت ہے کہ پاکستان میں ایک نہیں کئی قومیں آباد ہیں- ان میں سے بیشتر قومیں ”مظلوم قومیں“ ہیں- ان مظلوم قوموں کو آزادی کی نعمت سے مالا مال کرنے کی خاطر لندن اور نیویارک میں سیاسی اجتماعات منعقد ہوتے ہیں-سوال یہ ہے کہ یہ لوگ ہمیں واپس برٹش انڈیا میں کیوں دھکیل دینا چاہتے ہیں؟جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ اُن کی سرداریاں اور جاگیرداریاں برٹش انڈیا ہی کا سامراجی ورثہ ہیں- آزادی کے بعد اس ناپاک سامراجی ورثہ سے نجات حاصل کرنا ہمارا فرض تھا- ہم نے اب تک ایسا نہیں کیا مگر یہ امکان ضرور ہے کہ کل ہمیں کوئی ایسی قیادت میسر آ جائے جو پاکستان میں تحریکِ پاکستان کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی مہم کا آغاز کر دے- اس مہم کا آغاز یقینا سرداری اور جاگیر داری نظاموں کی تجہیز و تکفین سے ہوگا-

آئین و قانون کی حد تک تو یہ ظالمانہ نظام پہلے ہی سے کالعدم ہیں- بات تو فقط آئین و قانون کے حرف و معنی پر عمل کی ہے- ایسے میں وہ سیاستدان جن کے مخصوص مفادات ان نظاموں سے وابستہ ہیں وہ اپنے ذاتی اور طبقاتی مفاد کی خاطر اس حد تک خود مختاری چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت اُن کی سرداری اور جاگیرداری میں مداخلت نہ کر سکے- گویا یہ لوگ سرداری اور جاگیرداری نظام کی بقا کی خاطر پاکستان کو چار خود مختار ممالک میں تقسیم کر دینے کے سیاسی مسلک پر کاربند ہے- عوام میں تو اِن لوگوں کو کوئی خاص پذیرائی نہیں مل رہی مگر ہمارے حکمران اِن لوگوں کے سربراہوں کو سرآنکھوں پر جگہ دیتے ہیں- کیا یہ نادان اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے کہ 1940ءکی قراردادِ پاکستان کے نتیجے میں برٹش انڈیا کی تقسیم ناگزیر ہو گئی تھی؟ آج پاکستان کے اندر اُس قرارداد پر عمل درآمد کا مطالبہ اگر پاکستان کے کئی چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کا مطالبہ نہیں تو پھر کیا ہے؟

میری تمنا ہے کہ ہم سب ان سوالات پر غور کریں- ان سوالات کے درست جوابات پر ہی ہمارے اجتماعی مستقبل کا انحصار ہے- وقت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے- ”یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہءمحشر میں ہے“- اب ہمیں تصورِ پاکستان کے حرف و معنی پر دیانتداری سے عمل کرنا ہوگا- آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم سرداری اور جاگیرداری کو قائم رکھیں یا پاکستان کو؟  دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے- یہ فیصلہ ہمارے حکمران طبقے کو کرنا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).