پیر کی جوتی عورت، بیوی کا ریپ اور مضطرب مولوی


بھارت کی سب سے بڑی عدالت سے تین ماہ کے اندر خواتین کے حقوق کے حوالہ سے دو تاریخ ساز فیصلے آ گئے۔ اگست میں سپریم کورٹ نے ایک بار میں تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیا اور اب یہ فیصلہ سنایا کہ اٹھارہ برس سے کم عمر بیوی کے ساتھ جنسی عمل ریپ کے زمرے میں آئے گا۔ دونوں ہی فیصلوں پر بعض افراد کو اعتراض بھی ہے۔ تین طلاق والے فیصلہ کے خلاف تو علمائے کرام کا ایک پورا جمگھٹ ہی موجود ہے جس نے آخری لمحہ تک کوشش کی کہ ایک بار میں تین طلاق دینے کا غیر قرآنی عمل برقرار رہے۔ سلام کرنا ہوگا سپریم کورٹ کے ان ججوں کو جنہوں نے اپنے فیصلہ میں نہ صرف خواتین کے حقوق کے اعتبار سے استدلال کیا بلکہ یہ بھی درج کیا کہ یہ بدعت اسلامی احکامات کے بھی خلاف ہے۔ حیرت ہے کہ اتنے مدلل فیصلہ اور جگ ہنسائی کے باوجود کچھ مولوی حضرات ابھی بھی سپر ڈالنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ایسے حضرات کے پاس دلائل کے نام پر کچھ بہانے ہیں۔ مثال کے طور پر یہی کہ عورتوں کے حقوق کیا صرف ایک بار میں تین طلاق سے پائمال ہو رہے ہیں؟ فلاں فلاں مذہب میں دیکھو کیسی کیسی عورت مخالف رسوم ہیں؟ اب ان اصحاب کو کون سمجھائے کہ اسلام میں عورت کے حقوق اس سے مشروط نہیں ہیں کہ جب دنیا کی دوسری تمام عورتوں کو یکساں حقوق مل جائیں گے تب مسلمان عورتوں کو بھی حقوق دے دیے جائیں گے۔ اگر کسی اور جگہ حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور آپ بھی اپنے یہاں اسی خلاف ورزی کو جائز مان رہے ہیں تو آپ کے مذہب کا امتیاز کیا رہ گیا؟

اٹھارہ برس سے کم عمر کی بیوی کے ساتھ جنسی عمل کو ریپ قرار دینے کا فیصلہ بھی بڑے دوررس اثرات مرتب کرے گا۔ بھارت میں متعدد قبائل اور گروہوں میں بچوں کی شادی کی روایت ہے۔ اس روایت کے سبب بہت سے بچوں کا نہ صرف بچپن چھنا ہے بلکہ ان کی تعلیم اور صحت تک غارت ہو گئی ہے ایسے میں ضروری تھا کہ اس پر روک کی سمت کوئی فیصلہ کن اقدام ہو۔ حالانکہ عدالت کا فیصلہ اٹھارہ برس سے کم عمر بیوی سے جنسی تعلق پر روک تک ہے لیکن اس سے بچوں کی شادی پر قدغن لگانے میں مدد ملے گی۔ یہاں ایک بات یہ بھی لائق توجہ ہے کہ مسلمانوں میں اٹھارہ برس سے کم عمر کی لڑکی کی شادی کے واقعات اکثر دیکھنے میں آ جاتے ہیں۔ غریب اور کم پڑھے لکھے خاندانوں میں یہ روایت کافی ہے۔ اس کے سبب جہاں ایک طرف لڑکے کی تعلیم اور کریئر چوپٹ ہو جاتا ہے وہیں بچیاں اسکول تو دور جسمانی طور پر پختہ ہونے سے پہلے ہی حمل اور زچگی جیسی چیزوں سے دوچار ہوتی ہیں اور بڑی تعداد میں زچگی کے دوران ہلاک بھی ہو جاتی ہیں۔ اس لئے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمان بچیوں کے لئے ایک راحت رساں نوید ہے۔

خواتین کے حقوق کے حوالہ سے ایک اور اہم فیصلہ عدالت سے آیا ہی چاہتا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ اس معاملہ کی سماعت کر رہا ہے کہ کیا بیوی کے ساتھ زبردستی جنسی تعلق کو ریپ مانا جائے؟ اس سلسلہ میں بعض حلقوں کو تحفظات ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر بھارت میں میریٹل ریپ کو جرم قرار دیا گیا تو شادی کا انسٹی ٹیوشن متاثر ہوگا۔ ان افراد کی رائے کا احترام کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ اگر شادی کا مقصد بیوی نام کی شئے کو استعمال کے لئے خرید لینا ہے اور عورت کا وجود بیوی بننے پر صرف ایک استعمال ہونے والی شئے کا رہ جاتا ہے تو معاف کیجئے ایسے انسٹی ٹیوشن کو ختم ہو جانا چاہیے۔ دوسرے مذاہب کی میں بات نہیں کرتا لیکن اسلام میں شادی ایک کانٹریکٹ ہے جو مرد اور عورت کی رضامندی سے طے پاتی ہے۔ اب دنیا کا کوئی بھی قانون اٹھا کر دیکھ لیجیے کانٹریکٹ میں ہر فریق کو حقوق ملتے ہیں ایسا ممکن نہیں ہے کہ کسی کنٹریکٹ میں ایک پارٹی کو کچھ بھی نہ ملے اور دوسرے کو سارے اختیارات حاصل ہو جائیں ایسی صورت کو کانٹریکٹ نہیں سودا کہا جاتا ہے، اسلام میں شادی سودے بازی نہیں ہے اس لئے جس طرح شوہر کو یہ حق ہے کہ بیوی اس کے ساتھ زبردستی جنسی فعل انجام نہیں دے سکتی ویسے ہی عورت کے ساتھ زبردستی جنسی فعل ریپ ہی ہے اور اس کو جرم مانا ہی جانا چاہیے۔

گذشتہ کچھ عرصہ سے بھارت کی خواتین اپنے حقوق کی لڑائی کے لئے تواتر سے سامنے آئی ہیں۔ ممبئی کی حاجی علی درگاہ میں مقبرے کے اندرونی حصہ میں عورتوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ خواتین ممبئی ہائی کورٹ گئیں اور جب درگاہ انتظامیہ کو احساس ہوا کہ ان کے پاس دلیل کے نام پر کچھ نہیں ہے تو وہ بھاگے بھاگے عدالت گئے اور کہا کہ ہم خواتین کو داخلہ کی اجازت دے دیں گے۔ سبری مالا مندر میں دس سے پچاس برس کی عمر کی خواتین کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے اس کے خلاف بھی معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور اب عدالت کی آئینی بینچ اس کی سماعت کرے گا۔

کسی بھی سماج میں جب تبدیلی آتی ہے تو بہت سوں کو عجیب لگتا ہے، کئی لوگ بے چین ہونے لگتے ہیں اور بہت سوں کومفت کے اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہی امتحان کی گھڑی ہے، اگر آپ ان اعتراضات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے تو آپ کامیاب ہو جاتے ہیں اور تبدیلی آ جاتی ہے اور اگر آپ ڈر گئے تو مخالف آپ کی آواز کو دبا دیتے ہیں۔ خواتین کو مہاتما گاندھی کا ایک قول ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ باپو نے کہا تھا کہ پہلے وہ آپ کو نظر انداز کریں گے، پھر آپ پر ہنسیں گے، پھر آپ سے لڑیں گے اور پھر آپ جیت جائیں گے۔

 

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter