بچوں پر تشدد اور والدین کی غفلت


ٹی وی چینلز نے لیک ہونے والی فوٹیج چلائی کہ ایک مسٹنڈا سا آدمی بچوں کو ہراساں کر رہا ہے۔ وہ ہاتھ اٹھاتا ہے۔ پھر باقی بچوں کو ڈرانے کے لئے ایک معصوم بچے کو الٹا لٹکا دیتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے کہ ابو کو مت بتانا۔ وہ بچے عام طور پہ اچھل کود مچاتے، چیخیں مارتے، شرارتیں کرتے بچے نہیں تھے۔ وہ معذور بچے تھے۔ اس جلاد کے سامنے بھی اشاروں کی زبان میں اس سے رحم مانگ رہے تھے۔ بچے بھی کتنے معصوم ہوتے ہیں۔ جب دل کی جگہ سینے میں پتھر کی سل ہو تو فریاد چاہے الفاظ میں ہو یا اشاروں میں، سمجھ نہیں آیا کرتی۔ حسب توقع یا یو کہہ لیں کہ معمول کے مطابق وزیراعلی پنجاب نے نوٹس تو لے لیا۔ بندے بھی دھر لیے مگر آگے کیا ہو گا؟ دو چار سنسنی خیز اینکر بھی اپنی ڈی ایس این جی کے ہمراہ جیل پہنچ کر اس کے منہ میں مائیک ڈال کر بار بار منظر کشی کروا لیں گے کہ کیا، کیوں، کب؟ لیکن سوال وہیں کا وہیں ہے؟ آگے ہو گا کیا؟ کیا بچوں پہ تشدد ہونا بند ہو جائے گا؟ نہیں۔ ابھی لکھ ہی رہی ہوں کہ ٹی وی پہ ”فریقین کے درمیان صلاح نامہ“ کی بریکنگ چلنے لگی۔

کنڈکٹر تشدد نہیں کرے گا تو استاد کرے گا۔ استاد سے بچ نکلے تو قاری صاحب۔ انہیں رحم آ گیا تو امی، ابا، چاچو، ماموں، پڑوسی یا کوئی کزن۔ ہم مذاق اڑاتے ہیں کہ ارے یار یہ انگریز تو ایسے پاگل ہوتے ہیں کہ فلم دیکھتے ہوئے رو پڑتے ہیں۔ گانا گاتے ہوئے وہ ٹائیٹانک والی گلوکارہ کے گالوں پہ آنسو بہہ رہے تھے۔ ارے وہاں اسکول میں فائرنگ کے بعد لوگ موم بتیاں جلاتے ہوئے رو رہے تھے۔ امیریکن آئڈل میں ایک فرد کے نکلنے پر ججز بھی رو رہے تھے۔ وہ انگریز دراصل پاگل نہیں ہیں۔ وہ حساس ہیں۔ ان کے اندر ابھی انسانیت کا، انسان ہونے کا، دوسرے انسان سے رشتے کا احساس باقی ہے۔ اب جب غلطی سے انگریز لکھ دیا ہے تو لبرل اور ایجنٹ کے خطاب تو ویسے بھی مل جائیں گے۔

آپ میں سے اکثر نے ایک روتی ہوئی خوفزدہ بچی کی ویڈیو دیکھی ہو گی جو ون، ٹو یاد کرنے کے دوران اپنی امی سے مار کھا رہی ہے۔ آنسووں سے بھری آنکھیں اور اپلوڈ کرنے والا کمنٹ کرتا ہے کیوٹ، فنی، ہا ہا ہا ہا۔ واقعی؟ مذاق ہے ایک بچے کو پہلے ذہنی دباؤ اور پھر جسمانی تشدد کا شکار کرنا۔ ہمارے دوست نے بتایا کہ ان کے پڑوس میں ایک بچے کو والدہ نے اندھیرے کمرے میں بند کر دیا ہے اور چیخوں کی آوازیں پورے محلے میں آرہی ہیں کہ پلیز پلیز اب پڑھونگا۔ کیا یہ انسانیت ہے؟ آپ سیمینار کرتے ہیں کہ نوجوان پڑھے لکھے لڑکے انتہا پسندی کی طرف کیوں چل نکلے۔ تشدد کی راہ کیوں اپنا رہے ہیں تو جناب وہ دہشتگرد آئی بی اے، دارلعلوم، لمز، کے یو یا کسی اور اعلی ادارے میں پہنچ کر نہیں بنتے۔ ان کے دماغ میں خوف کا بویا ہوا بیج جب پھوٹتا ہے تو فصل دہشت کی نکلتی ہے۔ جو بویا ہے وہی کاٹ رہے ہیں۔ اسکول، مدرسہ، ٹیوشن بھیج کر ریس کا گدھا بناتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ 16 جماعت کے بعد نوٹ چھاپنے کی مشین بن جائے۔ کتنے والدین دن کا کوئی پرسکون وقت اپنے بچوں کے ساتھ ہنستے ہوئے نکالتے ہیں؟ بچوں کو سہولیات یا آسائشات دے کر ان کی ذمہ داری پوری کر دی۔ ہادئی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بڑی ذمہ داری دے دی یہ کہہ کر کہ ماں کی گود درسگاہ ہے۔ ادارہ ہے، تربیتگاہ ہے۔ ہم کیوں بھول گئے؟ ننھے معصوم بچوں کو دنیا میں لاتے ہیں اور پھر انہی کو دھتکارتے ہیں کہ دو گھڑی ٹی وی دیکھ لیں، گاڑی چلا لیں، فون پہ بات کر لیں، مہمانوں پہ اپنا اچھا امپریشن جما لیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک اسمارٹ فون تھما کر ہم سب فرائض سے پیچھے ہو گئے۔

جب کبھی گھر میں ٹی وی، اسمارٹ فون، آئی پیڈ یا مہمانوں کے بجائے بچوں کو ان کے والدین ہنستے ہوئے بلائیں گے، ان کے ساتھ باتیں کریں گے، کھیلیں گے تو ہی انہیں تحفظ کا احساس ہو گا اور والدین اور بچوں کے درمیاں اعتماد کی ایک فضا قائم ہو گی۔ ہر بچے کی ضد، چڑچڑے پن اور غصہ کے پیچھے کوئی وجہ ہوتی ہے اسے تلاش کریں۔ جب آپ بچوں کے ساتھ بیٹھنے لگیں گے تو آپ کو شاید یہ بھی نظر آ جائے کہ کونسا بچہ بلا ضرورت خاموش، خوفزدہ، حساس یا چڑچڑا ہے۔ ان سے باتیں ہی ان کے اور آپ کے درمیان کی برف پگھلا سکتی ہیں۔ اولاد کی تربیت ایک انتہائی دلچسپ مرحلہ ہے بشرطیکہ اپنے بچے کو اپنی اولاد اور اپنے حصے کے طور پہ دیکھیں نہ کہ پرائز ٹرافی بنا کر اس کی کامیابیوں سے اپنی گردن اکڑائیں۔ بچوں پہ ہمیشہ کامیاب پونے کا بوجھ ان کی اصل صلاحیتوں کو دباتا ہے۔ کامیابی کے ساتھ بچے کو ناکامی کو قبول کرنا بھی سکھائیں۔ ناکام ہونے سے ہی اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا پتہ چلتا ہے۔

اگر ہم اپنے بچوں کو ایک حقیقی خوش زندگی دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی آنکھیں، کان، زبان اور سوچ کے قفل کھولنے ہوں گے اور ہمیں ان کا محافظ بننا ہو گا۔ بچوں کو دنیا میں لانا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ یہ کام جانور بھی کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کی دنیا کو محفوظ بنانا اور اس دنیا کو ایک کامیاب انسان دینا ضرور ایک کارنامہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).