سندھ کے بچوں کی بوسیدہ چپلوں کا سفر 


وہ تعداد میں چار تھے ۔تپتی دھوپ میں سیاہ تار کول سے بنے روڈ کے کنارے سنگریزوں پر تھکے تھکے انداز میں چلے جا رہے تھے ۔ مجھے ان کی اسکول یونیفارم نے متوجہ کیا جس میں نیلے رنگت کی شرٹ نمایاں تھی ۔

میں اس وقت مانجھند شہر کے سامنے انڈس ہائی وے سے گذر رہا تھا ۔ویسے انڈس ہائی وے پر آنے کی وجہ بھی آپ کی دلچسبی کا باعث ہو گی ۔ کل اٹھارہ اکتوبر کو حیدرآباد میں ہونے والا بلاول بھٹو زرداری کا جلسہ اور اس کی سیکیورٹی سندھ کی نیشنل ہائی وے پر بڑی گاڑیوں جیسے کہ ٹرک ٹرالر وغیرہ کو روکے جانے کی وجہ تھی ۔

یہی سبب تھا کہ نیشنل ہائی وے ان دیو قامت گاڑیوں سے اٹا ہوا تھا ۔ روڈ پر چلنا تو دور، رینگنا بھی مشکل تھا ۔ قاضی احمد تک کا فاصلہ جو ایک گھنٹہ بیس منٹ لیتا ہے ،وہاں پہنچتے پہنچتے تین گھنٹے گذر چکے تھے۔ لہٰذا میں نے گاڑی کو دریائے سندھ پر ایک دو سال پہلے بننے والی آمری پل کی طرف گھمایا اور نیشنل ہائی وے سے انڈس ہائی وے پر شفٹ ہو گیا ۔

یہاں معاملات بہتر تھے اور گاڑی اپنی رفتار سے حیدرآباد کو دوڑ رہی تھی تب میں نے ان چاروں کو دیکھا۔ میں گاڑی میں اکیلا تھا تو میں نے انہیں لفٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ میں نے انڈیکیٹر دے کر گاڑی سائیڈ میں کرنا شروع کی مگر کسی حاملہ خاتون کی مانند بھوسے کا بھرا ٹرک میرے اوپر چڑھا آرہا تھا ۔

میں نے اس کا سماعت خراش ہارن نظر انداز کرتے ہوئے گاڑی روڈ سے اتار کر روک دی ۔اب چونکہ میں ان چار سے کچھ آگے آ چکا تھا تو میں نے انہیں ہارن دے کر متوجہ کرنا چاہا، وہ متوجہ نہ ہوئے ۔ میں نے بیک ویو مرر میں دیکھا وہ اسی طرح سر جھکائے چل رہے تھے ۔ میں گاڑی سے اترا اور انہیں آواز دی ۔ ان میں سے ایک آگے آیا ۔

کہاں جاؤگے ؟”
“انب کھوسو” اس نے گاؤں کا نام بتایا ۔یا شاید کوئی اور نام ہو جو میں سمجھ نہ پایا ۔
“آؤ ۔بیٹھو” میری بات پر وہ چاروں آگے آئے۔ جھجھکتے۔ یوں جیسے اپنے وجود پر شرمندہ ہوں۔

“کتنا دور ہے گاؤں؟” میں نے اگلی سیٹ پر سمٹ کر بیٹھے ہوئے سے سوال کیا ۔
“دس پندرہ کلومیٹر دور ہے”۔
“روز پڑھنے آتے ہو؟”
“ہاں”۔

“کون سی کلاس میں ہو ؟”
“کلاس سکس میں “
“بھئی تم کون سی کلاس میں پڑھتے ہو؟” میں نے پیچھے بیٹھے ہوؤں سے پوچھا ۔
“سب چھٹی کلاس میں پڑھتے ہیں “ آگے بیٹھے ہوئے نے جواب دیا

“واہ واہ۔ سارے ایک کلاس میں ہو ؟”
“ہاں “
“ اکٹھے آتے ہو ؟”
“ہاں”۔
“کیسے آتے ہو؟”
“چنگ چی پر”

“جاتے کیسے ہو؟”
“کبھی ڈاٹسن اٹھا لیتی ہے کبھی سوزوکی”
“اسکول سے یہاں تک کیسے آئے ہو ؟”
“پیدل”
“کتنا فاصلہ ہوگا ؟”
“ایک دو کلومیٹر “

“وہاں سے پیدل آرہے ہو ؟” میری حیرت پر وہ جواب میں ہنس دئیے ، ایک ساتھ۔
“کیا نام ہے؟” میں اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے سے معلوم کرنا چاہا ۔
“عبدالصمد”
“کیا بنوگے؟”
“وکیل”
“واہ سائیں واہ۔ بھئی تم کیا بنوگے؟ میں نے پیچھے بیچ میں بیٹھے ہوئے سے پوچھا
“میں فوجی بنوں گا “

“اور تم؟”میں نے اس کے دائیں بیٹھے ہوئے سے پوچھا۔ وہ ٹیچر بننا چاہتا تھا اور بائیں طرف والے کو بھی فوجی بننا تھا ۔
“یار عبد الصمد تم وکیل کیوں بننا چاہتے ہو ؟” میں نے عبدالصمد سے پوچھتے وقت اس کو دیکھا۔ تب میری نگاہ اس کی بوسیدہ  چپل پر گئی جس میں لگے ٹانکے صاف دِکھ رہے تھے۔
“اس کا باپ کہتا ہے وکیل بنو ۔ اس لئے وکیل بن رہا ہے ۔” پیچھے سے آواز آئی۔
“ہاں بھئی ؟”
“ہاں”
“پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہو ؟”
“نہیں ۔سرکاری میں ۔”

“یار عبدالصمد اگر بابا وکیل کا نہ کہتا تو تم کیا بنتے ؟”
“سائیں پھر میں ڈاکٹر بنتا ،نہیں انجنیئر،میں آفیسر بنتا “۔عبدالصمد ایک سانس میں بولتا گیا ۔یہ سن کر پیچھے سے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔ عبد الصمد ہنسنے کی آواز پر شرما گیا ۔
“یار عبدالصمد تم جو چاہو بن سکتے ہو ۔ ہمت کرو ۔ محنت سے انسان سب کچھ بن جاتا ہے “۔
“ہاں سائیں میں محنت کروں گا “۔اس کی بجھی آنکھوں میں ایک چمک ابھری۔ اتنی دیر میں ان کا گاؤں آپہنچا۔

“سائیں ہمیں یہاں اتار دو ۔ گاؤں آگیا “۔عبدالصمد کی آواز پر میں نے گاڑی روک دی۔
“یار تم لوگوں کی مہربانی “۔اتر کر جاتے وقت میں ان سے مخاطب ہوا۔
“نہیں سائیں ۔ آپ کی مہربانی ۔”چاروں نے سلام کیا اور چلنے لگے۔ جاتے جاتے عبدالصمد لوٹ آیا۔

“سائیں آؤ۔ ہماری چائے پی کر جاؤ”۔عبدالصمد کے لہجے میں بھری محبت نے میری آنکھیں بھردیں ۔
“نہیں یار۔ مجھے دور جانا ہے ۔ “عبدالصمد اپنے گاؤں کی طرف جانے لگا ۔ میری نگاہیں دوسرے تین بچوں کی چپلوں پر جا رکیں ۔ عبد الصمد کی چپل اور ان میں فرق نہ تھا ۔میرے آنسو بہہ نکلے ۔میں اسٹیرنگ پر سر رکھ دیا ۔ افسوس ابھی سندھ کے گوٹھوں قصبوں کے بچوں کی بوسیدہ چپلوں نے تعلیم اور ترقی کی خاطر بہت دور تک سفر کرنا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).