مطلب مدارس والے نہیں سدھریں گے؟


میرے دوست علم اللہ اصلاحی کے مضمون ”مدارس کے طلبہ کا ذہنی لیول کیا ہے؟“ پر مدارس سے متعلق افراد کا سیخ پا ہونا حیران کن نہیں ہے، ہاں اس بات کا افسوس ضرور ہے کہ مضمون میں جو سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے تھے ان پر جواب دینے کے بجائے ذاتیات کو نشانہ بنانے سے لے کر غیر فحش زبان میں گالیاں دینے تک سب کچھ کیا گیا۔ اس سلسلہ میں کسی حد تک سنجیدہ جوابی تحریر مفتی محمد توصیف قاسمی صاحب کی رہی۔ قاسمی صاحب نے تحمل کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا البتہ ان کے مضمون سے علم اللہ اصلاحی صاحب کے مضمون میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب مل گیا ہو، ایسا نہیں ہے۔

سب سے پہلے تو، آپ اسے میری کم علمی سمجھ لیجیے کہ نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگا کہ قاسمی صاحب اپنے مضمون کو میرے جیسے کم علموں کے لئے تھوڑا آسان زبان میں لکھ سکتے تھے۔ یقین مانیے، اگر وہ اپنے معیار سے اتر کر مجھ جیسوں کی سطح پر آکر آسان زبان میں مضمون رقم فرماتے تو بھی میں ان کی زبان دانی اور قادرالکلامی کا اتنا ہی معترف ہو جاتا جتنا اب ہوا ہوں۔ مجھے پورا حسن ظن ہے کہ انہوں نے ادق تراکیب کا استعمال مجھ جیسوں کو مرعوب کرنے کے لئے ہرگز نہیں کیا ہے اور وہ آسان لکھنے کے مشکل فن کو اچھی طرح جانتے ہوں گے۔

مجھے لگتا ہے کہ قاسمی صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ علم اللہ اصلاحی کے مضمون میں اسکولی طلبہ بنام مدارس کے طلبہ کا کوئی تقابل کیا گیا تھا۔ اصلاحی صاحب کے مضمون کا مقصد مدارس کے طلبہ کی ذہنی سطح کے سلسلہ میں تھا۔ طلبہ کے ذہنی لیول کے شکوہ کا مقصد مدارس میں تدریس کے ڈھانچہ کی اصلاح کی ضرورت پر زور دینا ہے۔ اس لئے اسے مدارس کو اسکول کے مقابلہ ہیچ ثابت کرنے کی کوشش سمجھنا اصلاحی صاحب کے ساتھ زیادتی ہوگی۔

قاسمی صاحب نے اپنے مضمون میں سورہ آل عمران کی آیت کے حوالہ سے فرمایا کہ اہل عقل و دانش اور حکماء کی دو صفات بیان ہوئی ہیں، ایک اللہ کا ذکر، دوسرے تدبر و فکر۔ قاسمی صاحب کا کہنا ہے کہ اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ ان دونوں صفات کا جامع اہل مدارس کے سوا کوئی طبقہ، کوئی جماعت، کوئی فرقہ، یا کوئی بھی بحیثیت طبقہ و جماعت روئے زمین پر موجود نہیں ہے۔ قاسمی صاحب شاید یہاں غور و فکر کو بہت محدود معنیٰ میں سمجھ رہے ہیں۔ غور و فکر سے مراد اس کائنات کی تسخیر اور اس میں اللہ کے ذریعہ رکھے گئے اسرار و رموز کی عقدہ کشائی ہے۔ اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا مدارس میں اس حوالہ سے غور و فکر ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو اب تک تسخیر کائنات، خلا نوردی، انسانی جسم میں موجود اسرار و رموز کی عقدہ کشائی اور انسانی زندگی میں آسانی کے لئے کون کون سی ایجادات یا تحقیق مدارس میں ہورہی ہے یا ہوئی ہے؟

قاسمی صاحب عقل کو اللہ کے ذکر کے ساتھ مشروط فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر اللہ کا ذکر نہ ہو تو ایسی عقل سے بے عقلی اچھی۔ اللہ کے ذکر کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے لیکن اگر ایسا ہے تو قاسمی صاحب کے موبائل سے لے کر بجلی، پنکھا، گاڑی، گھڑی گیس کا چولہا یہ سب بھی بے عقلوں کی ہی ایجادات ہیں۔ کیا ان سے قاسمی صاحب جیسے خوش عقیدہ مسلمانوں کی زندگی میں آسانی نہیں ہوئی؟ حرمین الشریفین سے حج کا براہ راست نظارہ ایسے ہی بے عقل موجدین کی دین ہے، حج پر جانے کے سارے وسائل انہیں بے عقلوں کی جستجو کا نتیجہ ہے، اذان کا لاؤڈسپیکر اگر بے عقل نہ ہوتے تو آج سامنے نہ ہوتا، مسجد میں لگے پنکھے، دارالعلوم دیوبند کے آن لائن دار الافتا کی سائٹ، قرآن مجید کو چھاپنے والی پریس، جس ای میل سے قاسمی صاحب نے مضمون روانہ کیا وہ ای میل یہ سب کیا انہیں بے عقلوں کے دم قدم سے نہیں ہے؟ قاسمی صاحب جیسے مہذب انسان سے یہ توقع میں کیسے کر لوں کہ وہ انسانی زندگی میں اتنی آسانیاں پیدا کرنے والوں اور تبلیغ اسلام کے اتنے ذرائع پیدا کرنے والوں کو بے عقل کہہ دیں گے صرف اس لئے کہ وہ مسلمان نہیں تھے؟

قاسمی صاحب نے بڑی آسانی سے اہل مدارس کو حاملین قرآن قرار دے دیا۔ انہوں نے قرآن سیکھنے اور سکھانے کی اہمیت پر مشہور حدیث بھی درج فرمائی۔ اس سے کسے انکار ہے لیکن قرآن سیکھنے اور سکھانے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ قرآن رٹنے اور رٹانے کا۔ مدارس میں برسوں تک قرآن یاد کرانے پر جتنا زور ہے اس کا دس فیصد اگر قرآن پر غور و فکر اور عصری سیاق و سباق میں اس کی تفہیم پر ہو تو شاید مدارس سے کافی کچھ کارآمد نکل سکتا ہے۔

یہاں میں اپنے والد محترم کی ایک بات درج کرنا چاہوں گا۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ جب ایک انسان جو اس کائنات کی وسعتوں اور اسرار و رموز سے بے خبر ہے وہ نماز میں سورہ حمد میں اللہ کو رب العالمین کہتا ہے اس وقت وہ صرف ایک کلمہ زبان پر جاری کر رہا ہوتا ہے لیکن یہی کلمہ جب ایک باخبر شخص کہتا ہے تو اس کے ذہن میں اس کائنات کی وسعتیں گھوم جاتی ہیں اور اس یہ کلمہ واقعی اس کے دل کی آواز بن کر نکلتا ہے۔ اب بتائیے سائنسی علوم انسان کے جذبہ توحید کو مضبوط کرتے ہیں یا کمزور؟

ایک جگہ قاسمی صاحب نے فرمایا کہ مدارس پر زبان چلانے والے طبقہ پر خود فریبی سوار ہے۔ قاسمی صاحب کی اس بات پر تو میں یہی کہوں گا کہ یہی تکلیف دہ بات ہے کہ مدارس والوں کو تنقید برداشت نہیں ہوتی۔ اچھا ہوا یہ افراد حضرت عمرؓ کی جگہ نہ ہوئے، جب ان سے کسی نے معلوم کر لیا تھا کہ سب کو تو مال غنیمت سے ایک ایک چادر ملی آپ کو دو کیسے مل گئیں؟ حضرت عمر بن الخطاب نے مدارس والوں کی طرح یہ نہیں فرمایا کہ تیری مجال کیسے ہوئی جو خلیفہ وقت پر سوال اٹھائے بلکہ انہوں نے فورا اپنے بیٹے کو شاہد کے طور پر پیش کیا جنہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے اپنے حصہ کی ایک چادر اپنے والد ماجد کو دی ہے۔

قاسمی صاحب کی اس ادا پر قربان جانے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے کتنی آسانی سے سائنسی ایجادات کے ڈانڈے مدرسہ والوں سے ملا دیے۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ مسلمانوں نے سائنسی میدان میں بہت کام کیا ہے لیکن کب اور کس کس شعبہ میں؟ اور ہاں، یہ بھی مت بھولئے کہ ہر مسلمان کو مدرسہ والا مت بنا دیجئے گا۔ سائنس ایسا علم ہے جس میں ہر تحقیق اگلی تحقیق ہوتے ہی پرانی ہوجاتی ہے۔ ایسے میں ہزار برس پہلے والوں کو آج کی سائنسی ایجادات کا کریڈٹ دینے کا حوصلہ قاسمی صاحب کا ہی ہو سکتا ہے۔ اسلام کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے اس لئے راہ کا پتھر ہٹانے تک کو بڑا کار خیر کہتا ہے، اب آپ بتائیے کہ آپ کوڑھ، ٹی بی، ایڈس، کینسر اور دیگر موذی امراض کا علاج کھوج کر دنیا کے لاکھوں کروڑوں افراد کو درد سے نجات دلانے والوں کو کیا کہیں گے؟

اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا، عالمی کپ کرکٹ کے ایک میچ میں بھارت بنگلہ دیش سے ہار گیا، ایک صاحب نے فرمایا کہ اس ہار کی ذمہ دار بھارت کی سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی ہیں۔ سننے والوں نے حیرانی سے پوچھا وہ کیسے؟ ان صاحب نے فرمایا کہ نہ اندرا گاندھی بنگلہ دیش بننے میں مدد کرتیں، نہ وہاں کی الگ ٹیم بنتی، نہ وہ عالمی کپ کھیلتی، نہ بھارت سے مقابلہ ہوتا اور نہ بھارت کو ہار ملتی۔ قاسمی صاحب کی دلیل بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ قاسمی صاحب! اسی بات کا تو رونا ہے کہ مدارس میں طلبہ کو بار بار یہی افیم چٹائی جا رہی ہے کہ دنیا میں جو بھی سائنسی ترقی ہے اس کے باپ دادا ہم مدرسہ والے ہی ہیں۔

عربی کی تعریف میں قاسمی صاحب کے ملفوظات کو میں مان بھی لوں تو یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ اس کا مدرسہ کے طلبہ کی علمی سطح سے کیا لینا دینا ہے؟ اول تو سارے مدارس کے فارغین عربی پر عبور نہیں رکھتے اور دوسری بات یہ کہ اگر زبان سیکھنا اس زبان میں موجود تمام علوم کے اپنے آپ سیکھ جانے کی ضمانت ہے تو ہر انگریزی بولنے والے کو دنیا کے ہر جدید علم میں طاق ہونا چاہیے۔

ہو سکتا ہے مجھے غلط فہمی ہوئی ہو لیکن مجھے ایسا لگا جیسے قاسمی صاحب عصری علوم کی اہمیت کا ذکر کرنے والوں کو طنز میں عصری علوم کے دلدادہ جیسے القابات سے نواز رہے ہیں۔ مدارس اور وہاں کے فارغین ہمارے سر آنکھوں پر لیکن عصری علوم سے دنیا کو حاصل سہولیات کے بغیر ایک دن گذار کر دیکھا جائے تو شاید پتہ چل جائے کہ سائنسی علوم کی کیا اہمیت ہے؟ مجھے قاسمی صاحب کی باتوں پر اس لئے بھی تعجب نہیں کہ دارالعلوم دیوبند میرے ہی ایک سوال کے جواب میں فتویٰ دے چکا ہے کہ اسلام میں جہاں کہیں علم حاصل کرنے کا حکم ہے اس سے مراد صرف علم دین ہے اور دنیاوی علوم کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ فتویٰ ویب سائٹ پر دیا گیا جو کہ دنیاوی علم کی ہی دین ہے۔

میں اس بارے میں قاسمی صاحب سے اتفاق کرتا ہوں کہ مدارس موجودہ وسائل کے ہی بہتر استعمال سے اچھے نتائج پا سکتے ہیں۔ علم اللہ اصلاحی کے مضمون کے حوالہ سے انہوں نے فرمایا کہ وہ یہ نہیں مانتے کہ مدرسہ اصلاح میں ایسا ماحول رہا ہوگا جس میں طلبہ کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ ایک دشمن ملک میں رہ رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ اصلاح میں فکری اختلاف کے باجود قاسمی صاحب کی اس رواداری کو سلام لیکن یہ بھی جان لیجیے کہ اصلاحی صاحب جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ سنا سنایا نہیں بلکہ بطور طالب علم ان کا ذاتی تجربہ ہے۔ میں یہ ماننے پر آمادہ نہیں کہ علم اللہ اصلاحی، جنہیں اپنے اصلاحی ہونے پر کوئی شرمندگی نہیں رہی وہ ایسی بات یوں ہی کہہ دیں گے۔

قاسمی صاحب اور مدارس کے دیگر فارغین یا ذمہ دار جب تک اس بات پر اڑے رہیں گے کہ ہمارے یہاں اصلاح کی ضرورت نہیں ہے اور ہم پر تنقید کے لئے لب کشائی مت کرو، اس وقت تک مدارس کا نصیبا سنورنے سے رہا۔ بار بار کہتے ہوئے اچھا نہیں لگتا لیکن مدارس میں نصاب سے لے کر نظام تک ہر جگہ بہت سی باتیں فوری اصلاح کی متقاضی ہیں۔ علم اللہ اصلاحی صاحب جیسوں کا مدارس والوں کو شکرگذار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی صحت مند تنقید کے ذریعہ انہیں اصلاح طلب امور کی طرف متوجہ کر رہے ہیں، ورنہ مدارس کی بھد پٹتی رہے گی۔


اسی بارے میں

مدارس کے طلبہ کا ذہنی لیول کیا ہے؟

مدارس کے طلبہ کا ذہنی لیول – جواب حاضر ہے

مطلب مدارس والے نہیں سدھریں گے؟

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter