انسان زیادہ اہم ہے یا آپ کا احتجاج؟


کیرالہ پولیس نے ایک صاحب کو گرفتار کیا جو تقریبا پینتیس منٹ تک مسلسل ایمبولینس کے آگے گاڑی دوڑاتے رہے۔ اس ایمبولینس میں ایک نومولود کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا جسے سانس لینے میں مشکل کا سامنا تھا۔ عام طور پر یہ رستہ پندرہ منٹ میں طے ہو جاتا ہے لیکن ان کا مؤقف تھا کہ وہ ایمبولینس کے لیے ہی راستہ بنا رہے تھے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے اس گرفتاری کے بعد ایسے لوگ کچھ سیکھیں گے کہ ایمبولینس کو راستہ دینا کتنا ضروری ہے شاید اسی طرح وہ کچھ احساس کر پائیں۔

ایمبولینس کو رستہ نہ ملنا کیرالہ ہی نہیں ہر بڑے گنجان آباد شہر کا مسئلہ ہے جہاں ٹریفک کنٹرول نہ ہو، تجاوزات کی بھرمار ہو۔ سڑک پہ نکلیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ بس موقع ڈھونڈتے ہیں کس طرح ایک نامعقول حرکت کر کے کچھ دیر ٹریفک کی روانی میں خلل ڈال سکیں۔

ذرا کوئی معمولی سا حادثہ بھی ہو جائے تو جمگھٹا سا لگ جاتا ہے، یہ پاس کھڑے لوگ کوئی مدد نہیں کرتے بلکہ بیچ سڑک میں ایسا رش ٹریفک جام کر دیتا ہے۔ اکثر اوقات تو اگر وہاں ایمبولینس کی ضرورت ہو تو یہی رش  ٹریفک جام میں تبدیل ہو کر ایمبولینس کو جائے حادثہ تک پہنچنے سے بھی روک دیتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ڈیوٹی پہ جاتے ہوئے خود بھی اسی طرح کے ٹریفک بلاک کا سامنا کرنا پڑا، فلائنگ کوچ کی ٹکر سے دونوں موٹر سائیکل سوار شدید زخمی تھے، ڈرائیور فرار ہو چکا تھا، پانچ چھ گاڑیاں، اتنے ہی موٹرسائیکل، دو ویگنیں سب وہیں سڑک پر بے ترتیبی سے کھڑی کیے سب لوگ ان دونوں کے گرد کھڑے تھے لیکن ایمبولینس کے لیے فون اب تک کسی نے نہیں کیا تھا۔ ان کی دلچسپی کا محور ان افراد کی ویڈیو بنانا تھا۔

خیر وہاں سے ایمبولینس کو کال کی، بہت مشکل سے اپنے لیے رستہ بنایا ہسپتال پہنچ کر ایمرجنسی سٹاف کو بتایا کہ ایک بندہ تو ایکسپائر ہو چکا ہے دوسرا پہنچے تو تیاری مکمل رکھیں اس کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ایمبولینس اس رش میں ایسا پھنسی کہ ایک گھنٹے بعد وہ ڈیڈ باڈیز ہی لے کر پہنچے۔ اس رات میں بہت دیر سوچتی رہی کہ آپ ڈیوٹی پہ نہ پہنچیں تولیبر روم کا ذمہ دار کون ہو گا اور اگر وہیں رکیں تو ہجوم کا حصہ بن کر آپ کیسے کسی کی مدد کر سکتے ہیں۔

کوئی احتجاج ہو تو اس کا سب سے زیادہ نقصان احتجاج کرنے والوں کے جیسے ہی دوسرے عام شہریوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جن بڑے لوگوں کے خلاف احتجاج ہو ان کے معمولات تو متاثر نہیں ہوتے البتہ ایسے روڈ بلاک میں کسی ایمبولینس کو پھنسے دیکھنا شاید ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے بھی انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ وہ گولڈن پیریڈ جس میں کچھ کیا جا سکے وہ شفٹنگ کے مسائل کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔

سٹوڈنٹ لائف میں بھی اور اب تک کسی بھی سٹرائیک یا احتجاج کا حصہ بنتے ہوئے دوستوں سے ایک جھگڑا ہمیشہ رہا کہ ہم روڈ بلاک نہیں کریں گے۔ ایک ایمبولینس ایک انسانی جان بھی ہمارے کسی احتجاج کی نذر ہو گئی تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تب بھی اور اب بھی بہت لوگ کہتے ہیں کہ روڈ بلاک کیے بغیر کوئی سنتا نہیں ہے تھوڑی بہت قربانی تو سب کو دینی چاہیئے باقی لوگ بھی بھگتیں تو یار یہ قربانی کی چھری کسی دکھیارے پریشان حال کی گردن پہ کیوں پھیرنی ہے جس کا کوئی لینا دینا نہیں اس سب سے؟ اگر کوئی ہسپتال جا رہا ہو اور ہم اس سے قربانی مانگیں تو وہ گالیاں تو دے دے گا قربانی زبردستی لی جا سکتی ہے۔

وی آئی پی مومنٹ پہ بات آئے تو لوگ اسے سیکیورٹی ورسز پروٹوکول کی بحث بنائے رکھتے ہیں، آپ کی حفاظت بھی ضروری ہے اور جانے کتنے برسوں تک پروٹوکول بھی لیکن جب آپ کی خاطر روٹ لگتا ہے تو لوگ پریشان ہوتے ہیں، رکشے ایمبولینس یا گاڑی میں ہسپتال جانے والے لوگ جن کا ہسپتال پہنچنا ضروری ہو وہ تو پھنسے رہ جاتے ہیں کہ جونہی سواری بادبہاری گزرتی ہے لوگ پہلے نکلنے کے چکر میں معاملہ مزید خرابی کی طرف لے جاتے ہیں۔

ایک دوست نے کہا کہ یہ سب تو ڈرامہ ہے، جب ان ڈاکٹروں نرسوں نے خود کہیں پہنچنا ہو تو سائرن بجاتے ہیں، سب ڈھکوسلہ ہے۔ یہ بات سن کر سوشل میڈیا کے وہ لوگ یاد آ گئے جو یہیں ایمان کا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ اس دوست سمیت سب پڑھنے والوں سے یہی کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام نہیں ہے کہ اس ایمبولینس میں کوئی مریض ہے یا نہیں، یا وہ کس کنڈیشن میں ہے۔ وہ جیسا بھی ہے اس کا بہرصورت آپ سے زیادہ جلدی پہنچنا ضروری ہے۔

جہاں مرضی جا رہے ہوں اور کسی احتجاج یا وی آئی پی مومنٹ میں پھنس جائیں، منزل دفتر ہو یا بازار، لیکن اگر کہیں ایمبولینس کا سائرن سنائی دے تو ایمبولینس کو رستہ ضرور دیں۔ آپ کے ریفلیکسز ایسے بنے ہوں کہ ایمبولینس کو رستہ دینا ہے، اس ایمبولینس میں کبھی آپ خود ہوں تو شاید اس کی قدر کا اندازہ نہ ہو، لیکن کبھی کوئی پیارا ہوا تو آپ کو احساس ہو گا اس ایمبولینس کے سوا ہر طرح کی ٹریفک اس وقت غیر ضروری لگتی ہے کسی گاڑی کسی موٹرسائیکل کو اس وقت سڑک پہ نہیں ہونا چاہیئے تاکہ آپ فورا ہسپتال پہنچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).