امریکی وزیرِ خارجہ ٹلرسن ’مخصوص‘ مطالبات کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے


امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان کے ساتھ اعتماد کی بحالی کے موضوع پر بات چیت اور طالبان کو کمزور کرنے کے حوالے سے ’مخصوص‘ مطالبات لے کر انتہائی مختصر دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔
اپنے قیام کے دوران امریکی وزیر خارجہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کریں گے۔

پاکستان آمد سے قبل افغانستان میں ریکس ٹلرسن نے کہا کہ ہم نے پاکستان سے اس حوالے سے کچھ مخصوص مطالبات کیے ہیں کہ وہ اس حمایت میں کمی کے لیے اقدامات کریں جو طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان میں مل رہی ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق بگرام کے فوجی اڈے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں امریکی وزیر کا کہنا تھا کہ ’ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ شرائط پر مبنی طریقہ ہے اور پاکستان سے ہمارا رشتہ بھی شرائط پر مبنی ہی ہوگا۔ یہ اس پر منحصر ہوگا کہ وہ ایسے اقدامات کرتے ہیں جو ہماری نظر میں نہ صرف افغانستان میں مفاہمت اور امن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہیں بلکہ مستقبل میں ایک مستحکم پاکستان کے لیے بھی لازم ہیں۔ ‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہم مستقبل میں پاکستان کے استحکام کے لیے بھی اس قدر ہی فکرمند ہیں جتنا کہ کئی معاملے میں افغانستان کے بارے میں ہیں۔ پاکستان کو حالات کا واضح انداز سے جائزہ لینا ہو گا۔ ‘
ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو آنکھیں کھول کر اس صورتِ حال کا جائزہ لینا چاہیے جس سے وہ دوچار ہیں کہ پاکستان کے اندر اتنی بڑی تعداد میں دہشت گرد تنظیموں کو پناہ کیسے مل جاتی ہے۔ ‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان پالیسی کے سامنے آنے کے بعد سے دہشت گردی کے خلاف بظاہر دونوں اتحادی ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔
پاکستان نے رواں سال اگست میں اپنی مصروفیات کو وجہ بتا کر ایک اعلیٰ امریکی وفد کے دورے کو منسوخ بھی کر دیا تھا۔ لیکن پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال کے حالیہ دورۂ امریکہ سے برف پگھلتی محسوس ہو رہی ہے۔ سفارتی حلقوں میں امریکی وزیر خارجہ کی آمد کو ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کئی مثبت پیش رفت سامنے آئیں ہیں جن سے ایک دوسرے کو سمجھنے اور تعاون بڑھانے میں مدد ملی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ گذشتہ دنوں اغوا شدہ امریکی اور کینڈین جوڑے کی بحفاظت بازیابی سے تعاون اور امید بڑھی ہے۔
‘ہم صدر ٹرمپ کے چودہ اکتوبر کے پیغام کو سراہتے ہیں جس میں کہا گیا کہ امریکہ اب پاکستان اور اس کے رہنماؤں کے ساتھ زیادہ بہتر تعلقات کا آغاز کر رہا ہے۔ انھوں نے پاکستان کی کئی موقعوں پر تعاون کی تعریف بھی کی ہے۔ ‘

افعانستان کے متعلق دونوں ممالک کے درمیان پالیسی اختلافات کھل کر سامنے آتے رہے ہیں۔ ریکس ٹیلرسن نے گذشتہ اگست میں پاکستان سے متعلق ایک بیان میں کہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ برسوں میں ’اعتماد میں کمی‘ آئی ہے کیونکہ ’ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں دی گئی ہیں تاکہ وہ امریکی فوج پر حملے کرسکیں اور افغانستان کے اندر قیام امن کی کوششوں کو ٹھیس پہنچا سکیں۔ ‘
سینیئر تجزیہ نگار اور شدت پسندی پر کتابوں کے مصنف زاہد حسین کہتے ہیں کہ گفتگو کا بڑا محور افغانستان ہی ہوگا۔ ’کسی بڑی پیش رفت کی امید نہیں لیکن دونوں کو ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ یہ دورہ پاکستان کے ساتھ انگیجمنٹ پالیسی کا تسلسل ہے۔ ‘

وزیر خارجہ ٹلرسن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو مختلف راستے اپنانا پڑے گا اور وہ ان کی ان تنظیموں کی دہشت گرد تنظیموں سے بچانے میں مدد کرنے کو تیار ہیں۔ ’ہم اس بابت اپنی امداد کو نتائج کے ساتھ مشروط کرسکتے ہیں۔ ‘ شرائط ایک ایسی پالیسی آلہ ہے جسے ماضی میں بھی پاکستان نے نہیں سراہا اس مرتبہ بھی یقیناً قابل قبول نہیں ہوگی۔ بعض ماہرین کے بقول امریکہ نے شاید ایسے پیغامات دیے ہیں جن کی وجہ سے حافظ سعید کی نظربندی جیسی خودبخود پیش رفت دیکھی گئی۔
اس امریکی امداد کا ایک اشارہ آج کل پاکستانی سرحد کے قریب مشرقی افغانستان میں جاری ڈرون حملے بھی ہوسکتے ہیں۔ ان حملوں میں زیادہ تر پاکستانی شدت پسندوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور خالد خراسانی اور عمر منصور کی ہلاکتیں انھیں ڈرون حملوں میں ہوئی ہیں۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ ڈرون حملے نہیں رکیں گے۔ ’دیکھنا یہ ہے کہ اب نشانے پر کون ہے۔ یہ پاکستانی طالبان کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مزید پاکستانی سرحد میں بھی ہوسکتے ہیں۔ ‘ زاہد حسین اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ’یہ حملے امریکہ خود یکطرفہ طور پر کر رہا ہے۔ اس میں اسے ایک حد تک پاکستانی معاونت بھی حاصل ہے۔ ‘

خیال ہے کہ پاکستان امریکی وزیر خارجہ سے افغانستان میں انڈیا کے کردار سے متعلق بھی بات ضرور کرے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی افغان پالیسی میں انڈیا کو تعمیر نو میں زیادہ بڑا کردار دینے کا اعلان کیا ہے اور امریکی وزیر دفاع پہلے ہی بھارت کا ایک دورہ گذشتہ دنوں کر چکے ہیں۔ یہ اقدامات یقیناً پاکستان کی تشویش میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ خیال ہے کہ امریکی سیکریٹری اس سلسلے میں پاکستان کی تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

دونوں ممالک کے تعلقات کی ایک بڑی بنیاد معاشی تعاون بھی ہے۔ سویلین اقتصادی امداد کے علاوہ امریکہ پاکستان کو افغانستان میں جاری جنگ میں مدد کے لیے کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت 13 ارب روپے سے زائد رقم بھی ادا کرچکا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کے مطابق یہ امداد ستمبر2001 سے جنوری 2016 تک پاکستان کو موصول ہوئی۔ حالیہ دنوں میں یہ امداد تقریبا ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کا مستقبل کیا ہوگا، اس پر بھی شاید بات ہوگی۔
ان دوروں سے حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی تو یقینا آئے گی لیکن یہ کتنی مدت کے لیے ہوگی ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp