شرجیل میمن ۔ دنیا کا سب سے بڑا ڈاکو


سندھ کے وزیر شرجیل میمن پر پانچ ارب 76 کروڑ روپے کرپشن کے الزام کی کہانی بڑی دلچسپ ہے، اس الزام کے مطابق دستاویزات میں ثابت ہے کہ ایک روپیہ بھی شرجیل میمن کی جیب میں نہیں گیا اور قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔

شرجیل میمن پر پہلا الزام ہے کہ انہوں نے جولائی 2013 سے جون 2015 تک ٹی وی اور ایف ایم چینلوں پر عوام میں آگاہی کے لیے مہم چلائی، جس کی مد میں قومی خزانے کو تین ارب 27 کروڑ کا نقصان پہنچا، نیب یہ وضاحت اب تک نہیں کرسکا کہ صحت، صفائی اور انسداد پولیو وغیرہ کے حوالوں سے چلائی جانے والی آگاہی مہمات کا پیسہ تو میڈیا ہاؤسز کو گیا، اس سے قومی خزانے کو کیسے نقصان ہوگیا۔

شرجیل میمن پر دوسرا الزام ہے کہ انہوں نے سات اشتہاری کمپنیوں کو پانچ ارب 78 کروڑ کا نقصان پہنچایا اور اپنی پسندیدہ کمپنیوں کو مارکیٹ کے نرخوں سے زائد نرخوں پر اشتہار دیئے گویا ملک کے بجائے نیب کا ادارہ اشتہاری کمپنیوں کے مالی مفادات کا نگہبان ہے، بہرحال یہ پیسہ بھی شرجیل میمن کی جیب میں نہیں گیا بلکہ اشتہاری کمپنیوں کے پاس گیا جبکہ نیب کے ریفرنس کے بعد ان سات میں سے چار کمپنیاں پیسے واپس بھی کرچکی ہیں، نیب کا کہنا ہے کہ اشہارات زائد نرخوں پر دیئے گئے جبکہ ملزم کا مؤقف ہے کہ نرخ وفاق کی ہدایات کے مطابق تھے۔

شرجیل میمن پر ایک الزام بحریہ ٹاؤن کو زمین الاٹ کرنے کا ہے، ملزم کے مؤقف کے مطابق اس زمین کی پوری قیمت وصول کی گئی جس کا دیگر الزامات کے جواب میں دستاویزات کی طرح مکمل آفیشل سرکاری ریکارڈ موجود ہے، سندھ میں معلومات کی رسائی کے قوانین کے تحت کوئی بھی شہری سرکاری ریکارڈ تک رسائی بھی حاصل کر سکتا ہے۔

شرجیل میمن تقریبا پونے دوسال تک ملک سے باہر رہ کر سندھ ہائی کورٹ میں مسلسل درخواستیں دیتے رہے کہ ان کو ضمانت قبل از گرفتاری دے کر ملک میں آنے دیا جائے، وہ مقدمات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، بالآخر درخواست منظور ہوئی اور وہ 19 مارچ 2017 کو ملک میں آکر عدالتوں کا سامنا کرنے لگے جبکہ دوسری جانب اشتہاری ہونے کے باوجود پرویز مشرف ملک سے بھاگے ہوئے ہیں۔

شرجیل میمن تاریخ کا سب سے کرپٹ سیاست دان ہوسکتا ہے مگر ابھی صرف الزام ہے، الزام ثابت ہونے کے بعد شرجیل میمن کو اگر بیچ چوراہے پہ پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنایا جائے تو مٹھائی بانٹنے والوں میں سب سے آگے یہ حقیر ہوگا مگر بہرکیف ہمارے یہاں ملزم کو مجرم قرار دینے کی ایک ایسی روایت پڑ چکی ہے کہ جس کے نتائج خوف ناک ثابت ہوں گے۔

ابھی صورت حال یہ ہے کہ صرف الزام کی بنیاد پر شرجیل میمن عدالتوں کا مسلسل سامنا کرنے کے باوجود نیب کے اس ادارے کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے ہیں، عوامی رائے عامہ کے مطابق جس کے چیئرمین کا تقرر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے مک مکا کے بعد ہوا، اگر سندھ سے سیاست دانوں کی گرفتاری کا سلسلہ تھم جائے تو عوام میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ فوج اور پیپلز پارٹی کی ڈیل ہوگئی ہے اور پیپلزپارٹی اپنے اینٹی اسٹبلشمنٹ اسٹینڈ سے پیچھے ہٹ چکی ہے، ابھی بھی یہ تاثر دیا جارہا تھا مگر شرجیل میمن کی گرفتاری کے بعد اب سب کرپشن کے معاملے پہ لگ کر اس بات کو بھول چکے ہیں۔

عدالت میاں نوازشریف کے خلاف فیصلہ سنا چکی ہے مگر وہ ملک سے باہر ہیں اور مقدمات کا سامنا نہیں کر رہے جبکہ شرجیل میمن ملک آکر مقدمات کا سامنا کرتے ہیں اور گرفتار کرلیے جاتے ہیں، مریم نواز پر دستاویزات میں جعل سازی ثابت ہوچکی ہے مگر وہ این اے 120 میں کیٹ واک کرتی پھرتی ہیں، کیپٹن صفدر پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات ہیں مگر وہ ایوان میں فوج کو للکارتے ہوئے قادیانیوں کا دانا پانی بند کردینے کے اعلانات کرتے ہیں، عمران خان اشتہاری ملزم ہیں مگر انہیں کوئی گرفتار نہیں کرتا، گرفتاری تو دور کی بات ہے، جب عدالت پولیس سے پوچھتی ہے کہ حکم کے باوجود عمران خان گرفتار کیوں نہیں ہوئے تو پولیس کا جواب ہوتا ہے کہ وہ انہیں ملے نہیں۔

صرف سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست دان گلی کے کسی غنڈے کی طرح دبوچے جاتے ہیں اور اگر یہ بات کسی کو صوبائی منافرت لگ رہی ہے تو کوئی ایک مثال سامنے رکھیں کہ نیب نے اتنا ذلیل کرکے اسٹبلشمنٹ کے کسی سیاست دان کو گرفتار کیا ہو، کسی ایک جاگیردار کہلانے والے زرعی سرمایہ دار، صنعت کار، جج  یا جرنیل کو گرفتار کیا ہو، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے حکومت کو نیچا دکھانے کے لئے غلط سوموٹو لیے، جن کی وجہ سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر ان سے کوئی سوال نہیں کرتا۔

شرجیل میمن کو بری طرح ذلیل کرنے کے بعد گریبان سے پکڑ کر سیکیورٹی اہل کار لے گئے، جب احاطہ عدالت میں شرجیل میمن اس بات کی کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح ضمانت مل جائے تو اس دوران عدالت کی لائٹیں اور پنکھے بند کر دیے گئے تاکہ انہیں اذیت ہو، نیب کے دفتر لے جایا گیا اور جب ان کا بیٹا راول کھانا لے کر آیا تو میڈیا نے اسے عیاشی قرار دیا، بیٹے سے غلطی ہوئی کہ وہ گھر میں اپنی اماں سے پکوانے کے بجائے کے ایف سی سے لے گیا، نیب والوں کو بھی یہ عیاشی لگی اور انہوں نے شرجیل میمن کو یہ کھانا نہیں دیا، شرجیل میمن ایک وزیر رہ چکے ہیں، انہوں نے بی کلاس اور میڈیکل سہولیات کی درخواست کی تو میڈیا نے اسے ایسے پیش کیا کہ دیکھا بدمعاشوں کو جیل میں کیسی سہولیات ملتی ہیں جبکہ یہ ایک عام قانونی حق ہے۔

انصاف کی انتہا یہ ہوئی کہ شرجیل میمن کے ساتھ 14 سرکاری ملازمین کے نام بھی ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے ہے اور ان کی ضمانت بھی مسترد ہوگئی جس کے بعد ان 14 میں سے 12 موقع پر گرفتار ہوگئے، ایک افسر موجود نہیں تھے جبکہ ایک دوسرے افسر احاطہ عدالت سے باہر نہیں نکلے اور گرفتار نہیں کیے گئے، گویا یہ کوئی اہم معاملہ نہیں، ملزم سے نیب کو کوئی دلچسپی نہیں، بظاہر میڈیا میں کردار کشی سے دلچسپی ہے، یہ کردار کشی ہوگئی تو کون ملزم کو پوچھتا ہے، گزشتہ سماعت میں ایک افسر سارنگ لطیف چانڈیو کے متعلق جج نے کہا کہ اشتہارات کی فائلوں پر آپ کے دستخط تک نہیں ہیں اور نیب نے آپ کا نام بھی ڈال دیا ہے، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور اگلی پیشی پر اس افسر کو بھی گرفتار کرلیا گیا، سندھ کے کئی ڈیپارٹمنٹس میں اس وقت کام کرنے کے لیے افسران نہیں، نیب نے سندھ کی انتظامیہ کو مفلوج کردیا ہے اور جب انتظامی مسائل پیدا ہوں گے تو کہا جائے گا کہ سندھ حکومت ناکام ہوگئی۔

 حیدرآباد کی ایک اسٹیٹ ایجنسی سے ترقی کرکے شرجیل میمن ارب پتی کیسے بنا، یہ سوال کرنے والے دراصل ایک انکشاف کررہے ہوتے ہیں کہ شرجیل میمن ارب پتی بھی ہے جبکہ وہ ارب پتی نہیں ہے، یہ الزام اسی طرح ہے کہ سندھ کی 39 شوگر ملوں پر آصف زرداری کا قبضہ ہے جبکہ ہر شوگر مل ایک بااثر فیملی کے پاس ہے، جن میں سے ایک پر بھی اگر مسٹر زرداری قبضہ کرنے کی کوشش بھی کریں گے تو ان کو لگ پتہ جائے گا۔

احتساب کے نظام میں خرابیاں بیان کرنے پر جب احتجاج کیا جاتا ہے یا ان خرابیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت ہے، گو بار بار ایسے موقع آنے کے بعد بھی ابھی تک ایسا نہیں ہوا مگر ایک امکان کے تحت یہی صورت حال کل کو تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے ساتھ بھی پیش آسکتی ہے، احتساب کے نام پر سندھ کے سیاست دانوں کی تذلیل کی جا رہی ہے، یہ سندھ پر وفاق کا حملہ ہے، سندھ کے کروڑوں باشندوں کے منہ پر تھپڑ مارا گیا ہے کہ یہ تمہاری اوقات ہے اور دوسری جانب صوبے کے قوم پرستوں اور اسٹبشلمنٹ نواز صحافیوں کو متحرک کردیا گیا ہے کہ وہ تضحیک، توہین، تحقیر اور تذلیل کی انتہا کردیں، انتقامی سیاست سے انتقامی صحافت تک محاذ گرم ہے مگر سندھ کے لوگ بظاہر ہتھیار ڈالنے کے موڈ میں نظر نہیں آرہے، ان کو توڑنا بہت مشکل ہے اور وہ ان صبرآزما لمحوں سے پہلے بھی گزرے ہوئے ہیں اس لیے سندھ پوری طرح تیار ہے۔

جب احتساب کے اس دہرے نظام پر بات کی جاتی ہے تو پسماندہ قوموں کا دشمن اور اسٹبلشمنٹ کا حامی طبقہ اسے کرپشن کی حمایت بھی قرار دیتا ہے، یہ جنونی طبقہ دلائل سے بے بہرہ اور اشتعال سے بھرا ہے مگر دلیل سے خالی ہے، ان میں مکالمے کی جرات نہیں، یہ صرف گالی دینا جانتے ہیں تاہم اگر تحمل سے چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس بات کا ادراک کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ کرپشن کو کوئی پسند نہیں کرتا، کرپشن ایک ناسور ہے جسے ختم ہونا چاہیے مگر انسداد بدعنوانی کے نام پر مخصوص سیاست دانوں کا خاتمہ ایک مکروہ مہم ہے، گرفتاری سے قبل ضمانت اگر شریف گھرانے اور عمران خان کو مل سکتی ہے تو کسی اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست دان کو کیوں نہیں مل سکتی جبکہ یہ قانون میں ہے، ایک قانون اور عمل درآمد کے دو طریقے جب تک رہیں گے، محرومیاں ختم نہیں ہوں گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).