کسی کا ریپ ہوتے دیکھ کر آپ کیا کریں گے؟


کیا آپ اس کو روکیں اور خاتون کو بچائیں گے؟ یا کیا آپ یوں ہی گزر جائیں گے یا پھر اپنے موبائل پر آپ اس کا ویڈیو بنائیں گے جس سے اس شخص کی شناخت ظاہر ہو اور وہ بعد میں پکڑا جائے؟

جنوبی انڈیا کے مشرقی ساحلی شہر وشاکھاپٹنم میں اتوار کو دن دہاڑے ایک بھیڑ والی سڑک پر ایک خاتون کے ساتھ ریپ کے بعد یہ سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔

ایک رکشہ چلانے والے نے اس واقعے کا جو ویڈیو تیار کیا ہے اس میں بہت سے لوگوں کو وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک شخص وہاں تک پہنچتا ہے جہاں ریپ ہو رہا ہے اور پھر وہ اچانک اپنا رخ بدلتا ہے اور پیدل چلنے والے راستے سے اتر جاتا ہے شاید یہ جان کر کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔

پولیس انسپیکٹر جی وی رمنا نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’ایک شخص نے ویڈیو بنایا جبکہ دوسرا شخص ہمیں بلانے آیا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے بتایا ’لیکن جب تک پولیس وہاں پہنچتی ریپ کرنے والے وہاں سے بھاگ گئے تھے۔ اسے ویڈیو سے پہچانا گیا اور بعد میں ہم نے اسے گرفتار کر لیا۔‘

انڈین میڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق خاتون اپنے خاوند سے جھگڑ کر شہر کے نواحی علاقے سے شہر آ گئی تھی۔ اس کی عمر تیس سال سے کم بتائی جاتی ہے۔

بعض رپورٹ کا کہنا ہے کہ وہ ’ذہنی طور پر معذور‘ تھی جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ بھوک اور پیاس سے اس قدر کمزور ہو چکی تھی کہ وہ مدد کے لیے چیخ بھی نہیں سکی۔

پولیس نے بتایا کہ متاثرہ خاتون ایک بھیڑ والے ریلوے سٹیشن کے پاس سڑک کے کنارے ایک پیڑ کے نیچے آرام کر رہی تھی جب 25 سال سے کم عمر کے شخص نے حملہ کر دیا۔ اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شراب اور منشیات کا عادی ہے اور اس پر منشیات کا دھندہ کرنے، اور ڈاکہ زنی کے الزامات ہیں۔

انڈیا میں ہر سال ہزاروں ریپ کے واقعات پولیس کے پاس آتے ہیں لیکن یہ واقعہ دوپہر دو بجے ایک بھیڑ والی سڑک پر ہوتا ہے اور کوئی بھی مدد کے لیے نہیں آتا ہے۔ یہ ایسے واقعے سے راہ گیروں کی لا تعلقی کو ظاہر کرتا ہے اور بعض لوگ تو یہ سوال کر رہے ہیں کیا ہم واقعی ایک تماشبین شہریوں کا ملک ہو کر رہ گئے ہیں؟

بہت سے لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور ’عوام کی اس قدر لاتعلقی‘ کو ’نفرت انگیز‘ قرار دیا۔

اسی طرح دسمبر 2012 میں جب دارالحکومت دہلی میں ایک 23 سالہ لڑکی کا چلتی ہوئی بس میں اجتماعی ریپ کیا گيا تھا تو لوگوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ بعد میں اس لڑکی کی ماں نے عوامی طور پر اس کا نام جیوتی سنگھ بتایا تھا۔

جیوتی کی اس واقعے میں موت ہو گئی تھی۔ اس کے مرد دوست نے بعد میں بتایا کہ کس طرح وہ زخمی پڑے تھے خون بہہ رہا تھا اور 25 منٹ تک کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں رکا۔

تقریباً پانچ سال بعد ملک میں بہت کچھ نہیں بدلا ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورغ میں قائم کراؤڈ گارڈ کے فلپ سنیل یورچ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر 2012 جیسا واقعہ پھر ہوتا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ پھر جیوتی سنگھ کی موت ہو سکتی ہے۔‘

بہر حال ان کا کہنا ہے کہ بھیڑ کا برتاؤ ایسا کیوں ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’عام شہری سے مداخلت کی امید کی جاتی ہے لیکن انھیں اس کی کوئی تربیت نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کون پہل کرے اور کون بھیڑ کو اکٹھا کرے؟‘

انھوں نے کہا کہ لوگ اس لیے بھی اس میں نہیں کودتے کہ انھیں پولیس کا اور قانونی پریشانیوں کا خوف ہوتا ہے اور بعض اوقات تو انھیں زندگی کا بھی خوف ہوتا ہے۔

وشاکھاپٹنم میں بھی کئی لوگوں نے بتایا کہ انھیں نے اس لیے بچاؤ نہیں کیا کیونکہ ریپ کرنے والے نے انھیں دھمکانے والے انداز میں دیکھا تھا۔

اس معاملے میں یہ دلیل ہضم نہیں ہو رہی ہے کیونکہ کئی لوگ مل کر تنہا ریپ کرنے والے شخص پر قابو پا سکتے تھے اور وہ بھی ایسے میں جب وہ نشے میں دھت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32489 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp