کیا ملالہ پیپلز پارٹی جوائن کریں گی؟


انٹر میں گھر والوں نے کہا کہ کوئی ڈھنگ کا مضمون رکھ لوں لیکن مجھے چونکہ قانون کی تعلیم لینے کے بعد سیاست میں آنا تھا اس لئے مَیں نے سوکس کا گروپ منتخب کیا۔ پروفیسر نسرین صاحبہ کی بدولت سیاست کی سمجھ بوجھ حاصل کی اور مسلم لیگ ن کے حق میں آواز بلند کی۔ مَیں سیاسی نظریات کا ہونا ضروری سمجھتی ہوں۔ مجھے وہ لوگ نہایت عجیب لگتے ہیں جن کے سیاسی نظریات نہیں ہوتے اور پچھلے دو سالوں سے مجھے اپنا آپ بھی عجیب سا لگ رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن سے اب مایوس ہو چکی ہوں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریات تو خوب ہیں لیکن مسلم لیگ ن کی کارکردگی اور کرپشن سے مایوس ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت کرنا مجھے کوئی سیاسی عقل مندی کی بات نہیں لگتی۔

پچھلے کئی مہینوں سے کپتان کی زبان درازی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ راستے میں بینرز آویزاں دیکھے ’’مرد حق شاہ محمود قریشی‘‘۔

والٹن روڈ پر شاہ محمود قریشی کی آمد تھی۔ صاحب بہادر پہلے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے تھے لیکن اب میاں صاجب کو چھوڑ کر کپتان کے ساتھ آ ملے ہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی ن لیگی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے رکن اپنی پارٹی چھوڑ کر عموماً پاکستان تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں کو جوائن کر چکے ہیں۔

جب برطانیہ کا دستور پڑھا تو یہ بھی پڑھا کہ وہاں اپنی پارٹی چھوڑ دینا سیاسی موت ہے۔ کیونکہ دوسری پارٹی بھی آپ کو قبول نہیں کرتی کہ جو شخص اپنی سیاسی پارٹی چھوڑ سکتا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا یے۔ ( کچھ بھی کر سکنے سے مراد کرپشن اور اپنی پارٹی سے غداری لیا جاتا ہے). یعنی کہ اپنی سیاسی پارٹی چھوڑنے والا سگریٹ چھوڑنے والے کی طرح ہے۔ کہتے ہیں کہ جو سگریٹ چھوڑ سکتا ہے وہ کسی کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں پر یہ بات صادق آتی ہے۔ اب ہمارے ہاں تو رواج ہی چل نکلا ہے کہ یہاں سیاسی نمایندے سیاسی جماعتوں میں shuffle ہوتے رہتے ہیں۔

   (بچپن میں جب الیکشن ہوتے تو اگر کوئی عام ووٹر اپنی پارٹی چھوڑ دیتا تو اسے لوٹا کہا جاتا تھا)۔ ان سیاست دانوں کی کرپشن کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ ان کے بارے میں میرا خیال تو یہی ہے کہ ان حضرات کو اپنی سابقہ سیاسی پارٹی میں کھل کر کرپشن کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا اس لئے انہوں نے پارٹی تبدیل کرلی۔

 اب بات کرتی ہوں ’’مرد حق شاہ محمود قریشی‘‘ کی۔ پی ٹی آئی کے کسی جلسے میں آمد تھی۔ جلسے میں حسبِ  روایت موٹر سائیکلوں، گاڑیوں پر سپورٹرز سوار تھے جو جلسہ گاہ کی طرف گامزن تھے اور فلمی گانے بھی خوب چل رہے تھے۔ جیسے ہی پی ٹی آئی کے قافلے کے پاس سے کوئی خاتون گاڑی یا موٹر سائیکل سوار کے ساتھ گزرتی تو سپورٹرز زیادہ چہکتے ہوئے بنلد آواز سے ابرار الحق کا گانا “کڑیاں لاہور دیاں” گانا شروع کر دیتے۔

ماضی میں میرا راوی روڈ، ناصر باغ اور آزادی چوک سے تعلیم کے سلسلے میں ہر روز آنا جانا ہوتا تھا۔ وہاں جب بھی مسلم لیگ ن کا جلسہ ہوتا یقین جانیں مَیں نے ایسی بیہودگی نہیں دیکھی۔ ایک بار آزادی چوک، مولانا طاہرالقادری کے جلسے میں کوریج کے لئے گئی تھی۔ مجھے کسی قسم کا سیکورٹی ایشو نہیں تھا کیونکہ مَیں پی ٹی وی کی ٹیم کے ساتھ تھی لیکن اس لئے کچھ گھبرا گئی جب میں ٹیم سے پہلے پہنچ گئی۔ یہاں پہنچ کر حیران ہوئی۔ لاوڈ اسپیکر پر ملی نغمے چل رہے تھے۔ کسی نے مجھے دیکھ کر کوئی جملہ نہیں کسا، کوئی ہوٹنگ نہیں کی (مَیں مولانا صاحب کے سیاسی نظریے سے اتفاق نہیں کرتی). ایک بار عوامی جماعت کے سیاسی جلوس سے بھی گزرنے کا اتفاق ہوا، جلوس کیا تھا ہڑتال کر رکھی تھی۔ مَیں نے دیکھا کہ پارٹی ورکرز گاڑیوں کو روک رہے ہیں لیکن اگر کسی گاڑی یا کار میں خواتین ہیں تو ان کو راستہ دیا جا رہا تھا اور وہ بھی بغیر ہوٹنگ کے۔ جماعت اسلامی کے جلسے میں بھی جانے کا اتفاق ہوا ہے اور وہاں بھی خواتین کے لئے اس قسم کی پریشانی نہیں دیکھی۔

ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے مَیں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہتی ہوں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ مَیں ایسا کر پاؤں گی۔ ایک دِن کسی صحافی نے کہا کہ ملالہ یوسف زئی ۲۰۲۳ میں پاکستان آئیں گی اور سیاست میں حصہ لیں گی۔ مجھے نہیں پتا کہ اُن کا سیاسی نظریہ یا پارٹی کا منشور کیا ہو گا لیکن بقول صحافی وہ پاکستان میں پی پی پی جوائن کریں گی اور اگر ایسا ہوا میرے سیاسی نظریات کا خانہ حالی ہی رہے گا۔

ویسے بھی یہ عجیب سی بات نہیں لگتی کہ جو سیاست دان اپنی سابقہ جماعت میں اچھی کار کردگی نہیں دیکھا سکا بلکہ کرپشن میں ملوث ہے تو دوسری سیاسی پارٹی میں آ کر وہ کیسے بہتر ہو سکتا ہے جب کہ جس پارٹی میں اُس نے شمولیت اختیار کی ہے وہ بھی کرپشن میں ملوث ہے۔ نئی پارٹی کا سیاسی لیبل لگا کر عوام کو دھوکا دینا کب تک جاری رہے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).