گردہ خریدنے والے عرب اور ایک ”مفت خیراتی“ ہسپتال


یہ پیر محل میں جنم لینے والی ایک کہانی ہے۔ یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک ضلع ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ نے منٹو کی لازوال کہانی ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ پڑھی ہو۔ گوگل میپ تو آپ کو پیر محل پہنچا سکتا ہے وہاں کی مساجد اور بازار کی تصاویر بھی دکھا سکتا ہے، لیکن اس کی چنداں ضرورت نہیں، نام میں کیا رکھا ہے؟ کہانی اہم ہے!

اس بار ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کہانی لکھی ہے ایک سعودی حجاب منظر نے، جو اردو کا ایک لفظ نہیں جانتا۔ حجاب منظر نام سے تو پاکستان کا شاعر لگتاہے۔ مگر کیا یہ کافی نہیں کہ وہ سعودی شہری ہے۔ شاہی خاندان سے نہ بھی ہو لیکن عرب پتی۔ سوری! ارب پتی ضرور ہوگا۔ کوئی دو ہفتے قبل اس نے سعودی ایئرلائن کی پرواز سے اسلامی جمہوری مملکت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے بےنظیر شہید ایئرپورٹ پر قدم رنجہ فرمایا۔ ایک وہیل چیئر میں تشریف کو رکھا۔ آپ چاہیں تو فرض کرلیں کہ وہ سونے کی بنی ہوگی۔ کسٹم والوں کی کیا مجال کہ سوال جواب کریں۔ نوکری سب کو کرنی ہے، لیکن جری اور ذہین لوگ کہاں نہیں ہوتے اور مان لیجیے کہ انٹیلیجینس ایجنسیوں میں ذہین لوگ بھی ہوتے ہیں۔

ایک افسر نے یہ منظر دیکھا تو سوچ میں پڑ گیا۔ کوئی معذور ڈپلومیٹ تو ہوگا نہیں۔ بزنس مین بھی مشکل ہے۔ اس حال میں تفریح کے لیے حسن و شباب کا متلاشی بھی نہیں ہوسکتا۔ وہ پیچھے گیا تو حجاب منظر کسی لگژری لیموزین کار میں نہیں ایمبولینس میں لوڈ کیا جارہا تھا۔ اس نے نمبر نوٹ کیا اور پیچھے لگ گیا۔ یہ ٹرک کی بتی کا تعاقب ثابت نہیں ہوا۔ ایمبولینس پہنچی پیر محل کے ”ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلکس“ سے متصل ایک کوٹھی میں، جس کے چند کمروں کو ایک وی آئی پی آپریشن تھیٹر میں بدل دیا گیا تھا۔ حجاب منظر کا موبائل ڈیٹا چیک کرنے سے معلوم ہوا، کہ موصوف گردہ بدلوانے کے لیے پاکستان تشریف لائے ہیں، سفید اجلے ایپرن باندھے مسکراتے چہروں والے ڈاکٹرز کی ایک ٹیم نے ان کا ستقبال کیا، جس کے سربراہ سرجن شاہد رشید نیفرالوجسٹ ( ماہر مراض گردہ) تھے۔ سرجن شاہد رشید نیفرالوجسٹ کون تھا؟

کل ایف آئی اے کی پریس کانفرنس کے مطابق جو آج ”ٹریبیون“ میں شایع ہوئی ہے، وہ دیپال پور کے گاؤں ”کھڑک سنگھ“ کا پیدایشی تھا۔ جس کا نام صدرالدین رکھا گیا تھا۔ وہ لاہور جنرل اسپتال کا معمولی ملازم تھا۔ اس کو ڈاکٹر شاہد رشید کا پتا چلا تو اس نے اخبار میں اعلان کرکے اپنا نام شاہد رشید کیا اور بعد میں اس نے نئے نام سے قومی شناختی کارڈ بھی بنوالیا۔ ڈاکٹر رشید کے کلینک میں فریم کی ہوئی اصل ڈگری چوری کرنے کے بعد وہ مستند ڈاکٹر بن گیا، کیوں کہ یہ ڈگری پاکستام میڈیکل ایسوسی ایشن کے پاس رجسٹرڈ تھی لیکن نہ وہ سرجن تھا اور نہ نیفرالوجسٹ۔ اس نے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلکس کے معاون عملے کی مدد سے گردے بدلنے کا راتوں رات دولت مندی عطا کرنے والا ”کارِ خیر“ شروع کیا۔

اب تیار ہو جائیے ایک اور صدمہ، یعنی شاک برداشت کرنے کے لیے۔ ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلکس چلانے والے میرے آپ جیسے عام لوگ نہیں ہیں۔ وہ سابق صدر تحریک انصاف اور گورنر پنجاب لارڈ سرور سابق ممبر برطانوی پارلیمنٹ کے دو سگے بھانجے خاشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ ہیں، جو اپنے باپ کے نام پر یہ رفاہی اسپتال چلا رہے ہیں۔ اللہ کی رحمت مرحوم پر بہرحال کم نہ ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں لفافہ صٖحافت کے علم برداروں کی زباں پر مہر خموشی لگی ہوئی ہے اور کسی میں ”حق گوئی و بے باکی آئین جواں مرداں“ والی ہمت نہیں کہ یہ نام زباں پر لائے۔ کیا کسی نیوز چینل نے اصل مجرموں کا نام و نسب بتایا؟

اب ملاحظہ کیجیے خبر میں بیان کیا گیا طریقہ واردات اور سوچتے رہیے کہ کیا ہوسِ زر میں کوئی انسانیت کے درجے سے اتنا گرسکتا ہے؟ حد کیا ہے آخر؟

ابراہیم ریاض اللہ اسپتال، اس علاقے کے دُور اُفتادہ دیہات میں غریب اور لاوارث آدمی کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے جو فیصل آباد، شورکوٹ اور جھنگ کے درمیان واقع ہیں اور لاہور کے اعلیٰ اسپتالوں تک رسائی کے وسائل نہیں رکھتے۔ ایک لیڈی ڈاکٹر کسی دیہاتی عورت کی زچگی کے لیے رجسٹریشن کرتی تھی تو اس کے سب ٹیسٹ ہوتے تھے۔ اگر کسی کا گردہ کسی ”حجاب منظر“ جیسے دولت مند کی ضرورت کے مطابق مل جاتا تھا، تو وہ ”گورنر زادوں“ کو مطلع کرتا تھا اور وہ حجاب منظر سے رابطہ کرتا تھا، کہ ”عالی جاہ! مبارک ہو نیا گردہ ہے، تیاری سفر کی کیجیے اور پہلی اطلاع پر پہنچ جائیں۔ بس جناب! صرف ایک کروڑ رُپیا لانا نہ بھولیے گا۔ “ غریب عورت جب ڈِلیوری کےلیے داخل ہوتی تھی، تو کوئی حجاب منظر مع ایک کروڑ رُپے بھی پہنچ جاتا تھا۔ عورت کا آپریشن ہوتا تھا اور وہ لا علم و بے خبر ایک بچہ اور ایک گردہ کے ساتھ دعائیں دیتی رخصت ہوتی تھی، کیوں کہ اس سے اخراجات کی مد میں کچھ بھی نہیں لیا جاتا تھا۔ اس کارِ خیر کا ڈنکا اطراف کے ستر گاؤں دیہات میں گونجتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میں یا آپ ان دیہات میں جا کے ”سچ“ بتائیں گے تو اس کی پاداش میں عقیدت مند ہمیں مار مار کے جہنم رسید کردیں گے، کہ خدا کے نیک بندوں پر الزم تراشی کرتے ہو مردودو۔

چھاپے کے وقت سات مسیحا گرفتار ہوئے۔ بدبخت زچہ اور خوش بخت حجاب منظر کو لاہور کے ایک اچھے اسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اصل مجرم فرار ہو گیا، یا فرار کرادیا گیا اور مشہور کیا جارہا ہے، کہ باہر نکل گیا ہے۔ دوسرے مجرم شہزاد نے اعتراف کیا کہ وہ الیکٹریشن تھا اور خیر سے ان پڑھ بھی، لیکن یہاں وہ ڈاکٹر تھا اور اپنے جیسے دوسرے ڈاکٹروں کے ساتھ گرد و نواح کے گاؤں سمندری اور کمالیہ جا کے بھی آپریشن کرتے تھے اور دعاییؑں سمیٹتے تھے۔

اسے کہانی ہی سمجھیے، کیوں کہ خیر سے یہ دھندا نیا نہیں۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کی بڑی ”شہرت“ تھی، اور مملکتِ پاکستان میں اسلام آباد شہر ملک کے اندر سے بھی ان دولت مندوں کو کھینچتا تھا، جو گردہ خرید سکتے تھے۔ کسی مقروض بھٹا مزدور کا، کسی مجبور کا، اس کی سب سے بڑی دُکان تھی ”کڈنی سنٹر“۔ جس کے مالک ایک سابق بریگیڈیئر اور ان کا کرنل بیٹا تھے۔ اگر آپ ایوب پارک کے سامنے عین جی ٹی روڈ کی ایک پہاڑی پراس دُکان کا محل وقوع، اس کی وسعت اور شان و شوکت دیکھ لیں، تو اندازہ نہیں کر پائیں گے، کہ پانچ ارب سے اوپر ہوگی یا 10 ارب۔

یہاں قانون کی نظر میں دھول جھونکنے کے طریقے بتانے والے ماہرین بھی ہیں۔ ان کی مدد سے آپ ثابت کر سکتے ہیں، کہ دُنیا میں آپ کا ایک بھی عزیز نہیں، جو گردہ دے سکے۔ جب بدنامی کی داستانیں عام، بہت عام ہوئیں، تو ایک چھاپے اور گرفتاریوں کا ڈراما بھی رچایا گیا اور کڈنی سنٹر بند ہو گیا۔ الحمد للہ! گردہ ”عطیہ“ کرنے والے مجرم تا حال زنداں میں ہیں، لیکن مالکان رہا ہوئے اور کڈنی سنٹر اسی کروفر کے ساتھ چل رہا ہے۔

میری طرح آپ کو بھی کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، کہ پیر محل کے وی آئی پی مجرموں کو قانون ہاتھ بھی لگا سکے گا۔ آپ اسے بھول کر اگلی کہانی پڑھیے۔

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal