تشدد اور جنسی زیادتی: شمالی کوریا کی فوجی خواتین کس حال میں ہیں؟


شمالی کوریا کے مسلسل بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام کی وجہ سے اقوام متحدہ نے اس پر سخت پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے حکمران کم جونگ ان کے درمیان زبانی جنگ بھی زور و شور سے جاری ہے۔ ساتھ ساتھ شمالی کوریا کی فوج میں شامل سابق خاتون فوجی نے بی بی سی کے ساتھ خصوصی بات چیت میں فوج میں اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔

لی سو یون اب جنوبی کوریا میں رہتی ہیں اور یہاں وہ اُن خواتین کی سماجی بہتری کا کام کرتی ہیں جو شمالی کوریا سے آئی تھیں۔ سنہ 1990 کے آغاز میں وہ شمالی کوریائی فوج میں شامل ہو گئی تھیں اور اس وقت وہ 18 سال کی تھی۔

لی سو یون نے بتایا کہ وہ فوج میں ریڈیو انچارج تھیں۔ ان کے اوپر کسی بھی قسم کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کرنے کی ذمہ داری تھی جو دشمن کے علاقے میں ہوں اور انھیں ہیڈکوارٹر بھیجنے کی ذمہ داری تھی۔ لی سو یون بتاتی ہیں کہ ‘اگر جنگ ہے تو، وہاں بمباروں کی جانب سے دشمن کے علاقے کو تباہ کرنا فوج کا ایک ہدف ہوتا ہے۔ ہمارا کام فوج کے اہلکاروں کو صحیح اہداف بتانا تھا۔’

لی سو یون نے بتایا کہ فوج کی تربیت کے دوران بہت سی چیزیں پڑھائی اور سکھائی جاتی تھیں اور فوج کی یہ تربیتی کلاسیں آٹھ گھنٹے تک جاری رہتی تھیں۔ اس دوران وہ صرف پڑھائی کیا کرتی تھی۔ فوجی افسران ان کو بتاتے تھے کہ کم جونگ ایل ( شمالی کوریا کے موجودہ سربراہ کے والد) ان کے لیے خدا ہیں اور ان کے لیے ہمیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ سپاہیوں کی اس کلاس میں ان کے دشمنوں کے بارے میں تعلیم دی جاتی تھی۔ شمالی کوریا کے دشمنوں میں امریکہ اور جنوبی کوریا کی فوجیں شامل ہیں۔

لی سو یون کا کہنا ہے کہ ‘ہم بندوقیں اٹھا کر شوٹنگ کی مشق کرتے تھے۔ مشق سے پہلے ہم بلند آواز میں چلاتے تھے: ‘ہمارے دشمن کون ہیں … انتہا پسند اور جنوبی کوریائی فوجیوں …’ اس کے بعد ہم شوٹنگ کرتے تھے۔ اس طرح ہم روزانہ اپنے دماغ کو مضبوط بناتے تھے۔’

اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ واقعی امریکہ سے نفرت کرتے ہیں؟ لی سو یون کہتی ہیں کہ ‘جب تک میں شمالی کوریا میں رہی، میں نے باہر کی دنیا کو نہیں دیکھا تھا۔ مجھے امریکہ اور جنوبی کوریا کے بارے میں زیادہ نہیں معلوم تھا۔ لہذا میں نے ان کے بارے میں دشمن کے طور پر سمجھا اور سوچا کہ مجھے ان سے لڑنا ہے۔’

’جب کم جونگ ایل نے جوہری پروگرام شروع کیا تو ہم سمجھ گئے کہ یہ ہماری حفاظت اور آزادی کے لیے ہے۔ اس لیے ہم نے محسوس کیا کہ یہ قدم صحیح ہے۔ ہم ذمہ داری اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ رہتے تھے، لہٰذا ہم نے سوچا کہ فوج کے تمام اقدامات درست ہیں۔’

جوہری جنگوں کے خطرات کے بارے میں لی سو یون بتاتی ہیں کہ شمالی کوریا کے لوگ جوہری خطرے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے ہیں۔ یہ حکومت اور فوج کی طرف سے بتایا کیا جاتا ہے کہ ہماری حفاظت کے لیے جوہری ہتھیار بہت اہم ہے۔

شمالی کوریا کی حکومت نے اپنے شہریوں کو جوہری جنگ کے خطرات کے بارے میں کبھی نہیں بتایا۔ لہذا، شمالی کوریا کے عوام اور فوجیوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ جوہری ہتھیار خطرناک ہو سکتے ہیں۔

قحط کی وجہ سے گذشتہ تین سالوں میں شمالی کوریا میں 55 ہزار سے زائد افراد مر چکے ہیں۔ لہذٰا بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ فوج میں شامل ہونے سے کھانے کے بارے میں فکر نہیں ہو گی۔ اس پر لی سو یون وضاحت کرتی ہیں کہ ‘فوجیوں کو حکومت کی جانب سے روزانہ تین بار کھانا دیا جاتا ہے۔ قحط کی صورت حال میں عام شہریوں کے لیے خوراک کی کمی ضرور ہوتی ہے لیکن فوجیوں کی خوراک میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ اگرچہ فوجیوں کو بہت زیادہ خوراک نہیں ملتی ہے اور ہم اس کے بارے میں بھی شکایت نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم کھاتے ہیں جو کچھ بھی ہمیں کھانا دیا جاتا تھا۔’

شمالی کوریا کی فوج میں خواتین فوجیوں کے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے لی سو یون کا کہنا ہے کہ ‘خواتین فوجیوں کے انسانی حقوق کی مسائل کو سننے کے لیے کوئی بھی نہیں ہے۔ خواتین جنسی زیادتی سے متعلق پریشان ہیں۔ ایسا میرے ساتھ نہیں ہوا، لیکن کمپنی کے کمانڈر نے اپنے کمرے میں کچھ خواتین سے جنسی زیادتی کی’ وہ کہتی ہیں کہ ‘مختلف یونٹوں میں سال میں تین بار ایسا ہو جاتا ہے۔ کمپنی کے کمانڈر کی طرف سے جنسی استحصال کے بہت سے واقعات کے بارے میں سنا گیا۔ وہ خواتین فوجیوں کو یا تو فوج سے نکال دیتے تھے یا ان کی ترقی روک دیتے تھے۔ ہماری حفاظت کے لیے یہ ہمیشہ خطرہ بنا رہتا تھا۔’

لی سو یون نے دس سال فوج میں کام کیا۔ انھوں نے 28 سال کی عمر میں فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ وہ دوبارہ اپنے خاندان سے ملنے پر بہت خوش تھیں۔ بعد میں انھوں نے جنوبی کوریا جانے کا سوچا لیکن ان کی سرحد پار کرنے کی پہلی کوشش وہ پکڑی گئیں اور جیل میں بھیج دیا گیا۔

جیل کی تشدد کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے لی سو یون نے بتایا کہ ‘جیل میں کسی بھی وقت، کبھی صبح چھ بجے یا رات دس بجے ہمیں اپنا سر نیچے کر کے کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ہم سے کہا جاتا کہ جو غلطی ہم نے کی ہے اس کی معافی مانگیں اس وجہ سے میرے جسم میں لقوہ ہونا شروع ہو گیا۔’

‘پھر مزدور کیمپ میں بھیجا گیا تھا۔ جہاں ہم اپنے گناہوں کے ازالے کے لیے سخت محنت کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ خواتین کو پہاڑوں سے چار چار بنڈل لکڑی لانے کے احکامات دیے جاتے اور اس کے علاوہ ہم گھروں کی تعمیر بھی کرتے۔ بہت مشکل کام کے بعد بھی ہمیں پانی پینے کے لیے نہیں دیا جاتا تھا۔’

لی سو یون اپنی دوسری کوشش میں جنوبی کوریا جانے میں کامیاب ہو گئیں۔ جنوبی کوریا میں داخل ہونے کے بعد وہ کچھ وقت کے لیے غصے میں تھیں۔ انھوں نے سوچا کہ وہ یہاں اپنے طرز زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں گزار سکیں گی۔

وہ کہتی ہیں: ‘میں نے بہت سارے خواب دیکھے، میں نے دیکھا کہ فوج نے مجھے پکڑ لیا ہے اور وہ مجھے جیل میں ڈال رہے ہیں۔’

لی سو یان نے جنوبی کوریا میں نیو کوریا خواتین تنظیم شروع کی۔ اس کے ذریعے وہ ایسے خواتین سے ملاقات کرتی ہیں جنھوں نے ان کے جیسے مسائل کا سامنا کیا ہے۔ وہ انھیں اس خوف سے نکالنے کے لیے کام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں: ‘شمالی کوریا پر عائد پابندیاں لازمی تھیں۔ میری زندگی کے ابتدائی حصے میں، میں نے شمالی کوریا کے تمام اقدامات کو درست سمجھا لیکن اب میں جمہوریت اور آزادی کا مطلب جانتی ہوں. لہذا میں کہہ سکتی ہوں کہ شمالی کوریا کا قاعدہ غلط ہے۔’

تاہم تمام مشکلات کے باوجود لی سو یون ایک دن شمال کوریا واپس جانے کا خواب دیکھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp