کراچی یا کلاچی


پہلے زمانے میں بزرگ جب کوئی بچہ زیادہ بیمار رہتا تھا، کھاتا پیتا نہیں تھا، بار بار نظر لگ جاتی تھی تو کہتے تھے اس کا نام بدل دو اور واقعی نام بدلنے کا اثر ہوتا تھا اور بچہ ٹھیک ہو جاتا تھا اور بد اثرات دور ہو جاتے تھے۔ یہی مشورہ ہمارے محترم وزیر ثقافت نے سندھ لٹریچر فیسٹیول میں دیا لیکن ان کجا مقصد یہ نہیں تھا وہ صرف ثقافتی نقطۂ نظر سے فرمارہے تھے لیکن ہم نے سوچا اگر ایسا ہو جائے تو شاید کچھ بہتری کی صورت پیدا ہو۔

جمعہ ستائیس اکتوبر کو سند لٹریچر فیسٹیول کا افتتاح ہوا۔ ہمارے محترم صوبائی وزیر سید سردار شاہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ سندھ کے ادیب دانشور اور سول سوسائٹی اجازت دے تو کراچی کا نام تبدیل کرکے اس کا تاریخی وثقافتی نام ”کلاچی“ رکھا جاسکتا ہے، اس طرح شہروں کے نام تبدیل ہورہے ہیں تو کراچی کا نام کلاچی کیوں نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ کراچی انگریز سامراج کی نشانی ہے اور اس کی مخالفت وہ کریں گے جو سامراجی قوتوں کے حمایتی ہوں گے۔ آگے فرماتے ہیں کراچی کو قومی ثقافتی وتاریخی حیثیت دلانے کے لیے اس کا نام کلاچی رکھا جاسکتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے تعاون سے سندھ اسمبلی میں قرارداد پاس کروائی جاسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی انتہائی قدیم شہر ہے آگے وضاحت فرمائی میں ثقافت کا وزیر ہوں اور میرا کام راستے اور ہسپتال بنانا نہیں بلکہ ثقافت کو فروغ دینا ہے، بجا فرمایا آپ نے، ہم آپ کے اس بیان کی تائید کرتے ہیں کیونکہ اس قدیم شہر کو قدیم حلیے میں بدلنے کے بعد اس کا نام تو ضرور بدلنا چاہیے۔ شہر میں جابجا کھنڈرات کی شکل میں عمارتیں، کھڈے والی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچرے کے ڈھیر، بے تحاشہ آبادی جو مردم شماری میں گنی ہی نہیں گئی یہ شہر اسی قابل ہے اس کا نام بدل کر کلاچی رکھ دیا جائے تاکہ قدیمی اسٹرکچر دیکھ کر تکلیف نہ ہو اور ہم بھی انگریز کی غلامی سے آزادی کے بعد انگریز سامراج کی اسآخری نشانی کراچی نام سے نجات پاکر کلاچی میں سکون سے رہیں اور کوئی غم اور مشکل ہمیں پریشان نہ کر سکے کیونکہ
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں

نام بدلنے کی روایت تو سندھ میں فروغ پا ہی گئی ہے اور اثرات بھی اچھے ہیں اس لیے نام بدلنے میں کوئی حرج نہیں۔ ویسے پوچھنا یہ ہے کہ نام بدلنے سے کیا کراچی کی صورتحال بہتر ہو جائے گی کیا کراچی کے مسائل حل ہو جائیں گے، کچرے کے ڈھیر ختم ہو جائیں گے، سڑکیں بن جائیں گی، ہر طرف ہریالی ہو جائے گی، صاف ستھرے ہسپتال ہوں گے اسکول ہوں گے، پانی کا مسئلہ حل ہوجائے گا، ابلتے گٹر ٹھیک ہو جائیں گے، ٹرانسپورٹ کانظام درست ہو جائے گا، سرکلر ریلوے چلنا شروع ہو جائے گی ۔ ہوسکتا ہے نام کی بحالی اچھے اثرات ڈالے اور کراچی کلاچی بن کر دنیا کا خوب صورت شہر بن جائے ۔ ہم دعا گو ہیں لیکن بقول شاعر
ہم روح سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم ہی لوگ

ہم کراچی کے رہنے والے کراچی کی بھلائی کیوں نہ چاہیں گے ہم کو میٹھادر کھارادر اور منوڑا سب عزیز ہے لیاری بھی ہمارا ہے ملیر بھی، نام بدل دیجئے مگر روش نہ بدلیے گا، کراچی کے حقوق اسے دیں، بلدیاتی ادارے ناکارہ و ناکام ہوچکے ہیں، صوبائی حکومت کراچی پہ خرچ کرنے کو تیار نہیں، وفاقی حکومت کا ایک منصوبہ گرین لائن ، مکمل ہوتا بھی ہے یا نہیں کیونکہ اس کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں آرہی ہیں پہلے ان رکاوٹوں کو دور نہیں کیا گیا اور کام شروع کر دیا گیا دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔ غریب عوام تو کراچی کو کلاچی بھی کہنے لگے گی جیسے معصوم بچہ توتلی زبان میں اب بھی کہتا ہے کلا تی۔ دوسرے ملکوں کی مثال دے دی جاتی ہے انھوں نے اپنے شہروں کے حالات اتنے بہتر اور آرام دہ بنائے ہیں کہ عوام خوش ہے۔ ہر چیز کا نظام درست کیا ہے تب جاکر پیکینگ بیجنگ اور بمبئی ممبئی بنا۔ آپ کی حکومت ہے اب بھی کچھ کر سکتے ہیں، آپ بھی محنت کریں اور اس شہر کی حالت بدل دیں یہاں کے شہریوں کو سہولتیں دیجئے، رینجرز کے بغیر شہر کا نظم نسق چلائیں تب جاکر کراچی کو کلاچی کہیں۔

ایک اور نکتہ قابل غور ہے کہ مائی کلاچی مچھیرن تھیں اور مکران سے ہجرت کرکے دریائے سند ہ کے ڈیلٹا میں ایک بستی بسائی اور یہ بستی مائی کلاچی کے نام سے موسوم ہوئی، اور ایک ماڈرن شہر کراچی میں تبدیل ہو گئی ان کی نسل کے لوگ اب بھی نزدیکی جزیرے عبداللہ گوٹھ میں ہیں۔ مائی کلاچی کے نام پہ ضرور کراچی کا نام رکھیں یہ مائی کا اور سندھ کا حق ہے لیکن کل کو کوئی کرمفرما عورت کے نام پر نام رکھنے ہر معترض نہ ہوجائے ۔ محترم وزیر اس پر ضرور توجہ فرمائیں شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).