برصغیر کے دو متوازی نظام تعلیم اور ہماری علمی زبوں حالی


مدارس کے طلبہ کے ذہنی لیول کے عنوان سے ایک بارپھر دینی اور عصری نظام تعلیم کی اہمیت سمجھانے کا سلسلہ دونوں جانب سے شروع ہو چکا ہے ۔ ہر دو جانب سے سوالات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور ہر ایک کو یقین ہے کہ وہ اپنی فکر میں سوفیصد درست ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ مباحثہ جن احباب کے درمیان جاری ہے، ان کا تعلق پڑوسی ملک بھارت سے ہے جہاں دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ کالج کے بعد جامعہ ملیہ اور ندوۃ العلماء بھی موجود ہیں ۔ ندوۃ العلماء کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ دوسرا دارالعلوم ہے جو آدھا علی گڑھ ہے اور جامعہ ملیہ کے بارے کہا جارہا تھا کہ یہ دوسرا علی گڑھ ہے جو آدھا دارالعلوم ہے ۔ ہندوستان انگریز دور میں سامراج کے خلاف سیاسی اور فکری جنگ کا براہ راست محاذ رہا۔ یہاں کے رہنماوں نے براہ راست برٹش تسلط کا سامنا کیا۔ سرسید احمد خان اور مولانا قاسم نانوتوی کی علمی و فکری تحریک سے لے کر مسلم لیگ، کانگریس، جمعیت علماء ہند اور دیگر چھوٹی بڑی سیاسی تحریکوں تک ایک شاندار دور رہا۔ اسی دور نے برصغیر کو حسین احمد مدنی، محمد علی جناح، گاندھی جی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبید اللہ سندھی، عبدالغفار خان، عطاء اللہ شاہ بخاری، علامہ اقبال اور ان حضرات ایسے کئی قد آور لیڈر اور دانشور دیے جن کی فکری صدا آئندہ کئی نسلوں تک گونجتی رہی۔ اگر برطانوی سامراج کے خلاف فکری جد وجہد کا آغاز شاہ ولی اللہ کے دور سے سمجھا جائے تو یہ دور کئی صدیوں تک پھیل جاتا ہے۔ “وللناس فیما یعشقون مذاہب” عربی کے اس مقولے کا مطلب ہے کہ پسند ناپسند کا معیار ہر ایک کا اپنا ہوتا ہے۔ اس لیے ہر شخصیت اور ہر عالی دماغ کے فکری سرچشمے سے ایک فکری تحریک اٹھی جس نے بعد کے ادوار میں ہرعہد کو متاثر کیا۔ آج برصغیر کی یہ فکری رنگارنگی اسی مرکزی نقطے سے پھوٹنے والی بنفشی شعاعیں ہیں۔ اختلاف علمی روایت کا خاصہ رہا ہے۔ فکری مباحث میں اختلاف ہر وقت ہوتا رہتا ہے اور ان بزرگوں کا خاصہ تھا کہ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے احترام میں کمی نہیں آئی۔

دینی وعصری علوم کے دو الگ نظام ہائے تعلیم ہندوستان کو اسی دور میں دیے گئے۔ مسلمانوں کی مذہبی اور معاشی ومعاشرتی حیثیت کے تحفظ کے لیے دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ نظام تعلیم کی بنیاد رکھی گئی، چونکہ یہ دور افراتفری اور ہنگاموں کا تھا اس لیے ہندوستان بھر کی مسلم فکر اور تھنک ٹینک کا مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے تعاون سے مذہبی اور عصری علوم کو یکجا کرکے ایک ایسا نظام تشکیل دینا ناممکن تھا جس میں مسلمانوں کی مذہبی علوم کی روایت کا تسلسل بھی ہو اور ان عصری علوم وفنون کا بھی جدید شکل میں احیاء ہو جو کبھی مسلمانوں کے دسترس میں رہےتھے۔ یا جن کی بنیادوں کے متعلق مسلمانوں کا دعوی ہے کہ ہم نے رکھیں۔ افراتفری کے اس دور میں جس کو مسلمانوں کی قومی اور نظریاتی مفادات کے تحفظ کے لیے جو راہ سجھائی دی وہ ان پاکیزہ ہستیوں نے اپنائی۔ ہندوستان بھر میں ان دونوں نظاموں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور اس طرح آج برصغیر پاک وہند کا خطہ تعلیمی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک دوسرے کو نہ سمجھنے اور سمجھنے کی کوشش نہ کرنے کے باعث اس بیچ میں وہ غلط فہمیاں بھی بیچ میں آگئیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ بس لفظی جنگ میں ایک دوسرے کو مطعون کیا جاتا ہے۔ عقل رسا کے دعوے دونوں جانب موجود ہیں۔ ذہنی پستی کے طنزیہ تیر دونوں جانب سے پھینکے جاتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ ہمارے خطے کے فکری بانجھ پن کے سوا کچھ نہیں کہ علوم کی دنیا میں ہم ناقل ہی ہیں۔ اجتہادی اور تحقیقی روش کو چھوڑکر ہم نقل در نقل کے عادی ہوچکے ہیں۔ دنوں نظاموں میں فرق صرف اتنا ہے کہ مذہبی طبقے کے پاس علوم صدیوں کی منقولہ ہیں اور عصری اداروں کے پاس مغرب کی منقولہ۔ مذہبی علوم کو برکت اور بزرگوں کی میراث سمجھ کر حرزجاں بنایا گیا ہے اور عصری علوم مغرب سے درآمد شدہ لنڈے کے کوٹوں کی طرح شوق سے لیے جاتے ہیں۔ افراد کی بات الگ ہے کہ بحمد اللہ اب بھی اس میں کچھ رمق باقی ہے۔

مختلف شخصیات نے اپنے اپنے نظاموں کو تنقیدی نگاہ سے پرکھ کر اپنی خامیوں پر بات کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ کی ایک تقریر اس حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل رہی، جنہوں نے مدارس کے نصاب اور عمومی نظام تعلیم پر اپنی گفتگو میں بہترین خلاصہ پیش کیا تھا۔ مگر بحیثیت مجموعی صورتحال جمود ہی کا شکار ہے۔ دارالعلوم دیوبند پر الزام یہ تھا کہ اس نے عصری علوم وفنون کو اپنے نظام میں پہلے ہی دن جگہ نہیں دی جبکہ علی گڑھ نے اپنے آغاز میں سائنس اور مذہب کو اپنے نظام سے باہر رکھا۔ سائنس خود کئی دہائیوں بعد علی گڑھ کی بارگاہ میں باریابی کی اجازت پا سکی۔ البتہ مذہب کو کبھی اس درسگاہ میں وقیع مقام کبھی حاصل نہ ہوسکا۔ جس کی وجہ سے کبھی ہندوستان کے مسلم اقوام کا مذہبی حوالے سے علی گڑھ کے فضلاء پر اعتماد نہیں رہا۔ دارالعلوم اور علی گڑھ کالج کے فیض یافتگان نے اسی روش پر اصرار کیا حالانکہ ہندوستان کی آزادی یا پاکستان کے بننے کے بعد تعلیمی حوالے سے مل بیٹھ کر ایک فارمولہ طے کیا جانا چاہیے تھا۔ ایک مشترکہ نظام قائم ہوجانا چاہیے تھا کہ ایک ہی تعلیمی نظام کے دائرے میں مذہبی اور عصری علوم پڑھائے جاتے۔ ابتدائی کلاسوں میں تمام علوم کی طرح مذہب بھی شامل ہوتا اور بعد کے اختصاصی مراحل میں جس طرح انجنیئرنگ، میڈیکل، کمپیوٹر سائنسز وغیرہ کے شعبے الگ ہوجاتے ہیں مذہبی علوم بھی ایک الگ شعبے کی شکل اختیار کرتے۔ یوں ابتدا ہی سے ایک دوسرے کی اہمیت سمجھ آتی اورہر فریق دوسرے کو حریف کے بجائے اپنے ہی ادارے کا فیض یافتہ سمجھتا۔ اب حال یہ ہے کہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے کے بجائے ہم ایک دوسرے کو ذمہ دارقرار دے رہے ہیں۔ کسی کا الزام ہے کہ ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ مولوی ہے اور کسی کا کہنا ہے کہ ترقی کے لیے جن علوم میں مہارت ضروری ہے وہ صلاحیتیں تم نے خود حاصل ہی نہیں کی۔

تنقیدی نگاہ ڈالی جائے تو مدارس کے تعلیمی نظام میں بھی تجدید کی ضرورت ہے۔ ہماری فقہی کتابیں صدیوں قبل کی لکھی کتابیں ہیں جن میں اب تک دنیا دارالاسلام اور دارالحرب ہی کے دو حصوں میں تقسیم ہے۔ مسلمانوں کی خلافت قائم ہے اور غیر مسلم ممالک سے خراج وصول کیا جا رہا ہے۔ زکوۃ کا حساب کتاب اونٹ گائے اور بکری کے حساب سے کیا جا رہا ہے۔ کاروبار کی تقریبا ساری مثالیں جانوروں کی خرید وفروخت کی دی جاتی ہیں۔ تفسیر اور احادیث کی تشریح و اطلاق کے باب میں کوتاہیوں کی تفصیل کے لیے شاید یہ موقع مناسب نہیں۔ اگرچہ صدیوں قبل کی لکھی ہوئی یہ کتابیں اس قابل ضرور ہیں کہ آپ کو دینی نظام کی بنادیں سمجھا دیتی ہیں۔ مگر موجودہ دور کے حساب سے اس کی اپڈیٹ شکل کی تشکیل ہر طالب علم کو خود کرنی پڑتی ہے۔ یعنی اصول وقواعد تو سمجھ آجاتے ہیں،جزئیات پر اطلاق کرتے ہوئے ہر طالب علم کو الگ سے سوچنا پڑتا ہے، ایسے میں فقہ کے لاکھوں طلبہ کی سوچ میں غلطیوں کے امکانات بھی بے شمار ہوتے ہیں۔ جو طلبہ زیادہ ذہین نہیں ہوتے یا انہیں جدید فقہی کتابوں کے مطالعے کا موقع نہیں ملتا وہ اس قدیمی نظام پر ہی اصرار کرتے رہ جاتے ہیں۔ انفرادی طورپر جدید فقہ پر بہت سارا کام ہوا ہے مگر یہ جدید فقہ مرتب ومدون شکل میں اب تک نصاب کا حصہ نہیں بن سکی، نہ طلبہ کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ کتنا کام ہوچکا ہے اور کتنا مزید باقی ہے جو کرنا ہے۔ یہی حال تفسیر، احادیث، منطق وفلسفہ، عربی ادب و دیگر علوم کا ہے۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ دینی علوم کو اپڈیٹ کرنے کے لیے عصری علوم کی بھی کچھ نہ کچھ مہارت لازمی ہوگی۔ جدید معاشیات، سوشل سائنسز، جدید قانون، جدید فلسفہ و منطق، مغربی فلسفہ انسانیت، عالمی قوانین اور سائنس کا کچھ حصہ یہ سب پڑھنے کے بعد ہی ایک عالم دین عصرحاضر کے مسائل کو پوری طرح سمجھنے کا اہل ہوگا۔

عصری نظام میں جس تبدیلی کی ضرورت ہے وہ سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ مغرب سے درآمدہ سائنس اور دیگر علوم ہمارے ہاں بلاکم وکاست اور بلاکسی تنقیدی نظر کے پڑھائے جاتے ہیں خود اپنی تحقیق کا ذوق ہی یہاں مرچکا ہے، جو ہے سب نقل ہے۔ اسی تحقیقی بانجھ پن کی ہی وجہ ہے کہ مغرب کے مقابلے میں احساس کمتری ہمارے ہاں عام ہے، یہ احساس کمتری ہمیں مزید کم ہمت کرتی جارہی ہے جس کی وجہ سے سائنس جیسے خالص عقلی اور تجرباتی علم میں بھی ہم تقلیدی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ مغرب کے قائم کردہ کسی نظریے پر ہمارے ہاں تحقیقی کام نہیں ہوا۔ اسے درست یا غلط ثابت کرنے سے متعلق ہمارے ہاں کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ سائنس پر کبھی ایک مسلمان کے زاویہ نگاہ سے نظر نہیں ڈالی گئی۔ سائنس کے کتنے نظریات ہیں جو اسلام کے بنیادی عقائد سے ٹھکراو رکھتے ہیں۔ ان پر تحقیق کی ضرورت ہے، انہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے نئے سرے سے مدون کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نئے سائنسی اکتشافات اور ایجادات کے ذریعے ہی دیگر ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہونے کی جگہ پا سکتے ہیں۔ مقابلے کی دوڑ میں قائم دیگر اقوا م کی علمی برتری کو علم سے ہی چیلنج کرنا ہوگا۔ مگر ہمارے ہاں تو حالات اس کے برعکس ہیں۔ مغرب سے علمی مقابلے کے بجائے خاموشی سے اس کی تقلید کیے جارہے ہیں۔ اور المیہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام پر بڑے بڑے ادارے قائم ہیں جو سالانہ اربوں کھربوں کا بجٹ ڈکار جاتے ہیں مگر اس ملک وقوم کے حق میں نتیجہ صفر۔ اور دوسرا یہ کہ عصری ادارے مذہبی تعلیم سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ مذہب اب نوجوان طلبہ میں ایک اجنبی سی چیز ہوکر رہ گیا ہے۔ دین کی انتہائی ابتدائی باتیں جو شاید کبھی ہر عام مسلمان جانتا تھا آج ایک تعلیم یافتہ نوجوان بھی نہیں جانتا۔ دینی علوم سے ادنی واقفیت بھی نہ رہنے کے باعث ہمارا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہورہا ہے۔ مذہبی طبقے کو جدید علوم کی اہمیت کا احساس نہیں اور وہ اسے اب بھی انگریز کی میراث کہہ کر دھتکار رہا ہے۔ اس کی اہمیت سمجھانے والے کو مغرب زدہ اور مغرب کا ذہنی غلام قرار دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف عصری تعلیم یافتہ ذہن ہے جو سائنس کے نام پر تقلیدی روش کا شکار ہے۔ روشن دماغی کے نام پر تاریکی میں پڑا ہے اور تاسف یہ کہ اسے اپنی اس تاریکی کا احساس بھی نہیں۔ مذہب سے دوری نے اسے کہیں کا نہیں رہنے دیا۔

دینی اور عصری علوم کے وارثین جب تک اپنے حالات پر نظرثانی نہیں کرتے۔ جب تک دوسروں کی خامیاں نکالتے رہنے کی روش چھوڑ کر اپنا احتساب شروع نہیں کرتے تب تک صورتحال یہی رہے گی جو آج ہے، یعنی کیچھڑ اچھال اچھال کر دوسرے کو گندا کرنا خود کو صاف پوتر ثابت کرنا۔ ذہنی پستی کے طعنے ایک دوسرے کوہم دیتے رہیں گے۔ کردار پر انگلیاں اٹھائیں گے، مکھی پر مکھی ماریں گے اور اس گھن چکر سے کبھی نکل نہیں پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).