فیس بک رکیوسٹ ایک جنسی ہراسمنٹ یا پیشہ ورانہ رویہ کا فقدان


پاکستان جیسے ملک میں جہاں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل اغوا اور ریپ معمولی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہوں سال گزشتہ میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم کے مطابق ایسے تین ہزار سے زیادہ واقعات درج ہوئے جبکہ ہزاروں لڑکیاں اور عورتیں بدنامی کے خوف کے با عث اپنے خلاف ہونے والے جنسی تشدد کو اپنے اندر ہی گھونٹ دینے پر مجبور رہی ہوں گی وہاں آسکر ایوارڈ یافتہ فلم میکر شرمین عبید چنائے کے ایک ٹوئیٹ کی ایسی دھوم ہے جیسے اس ملک میں جنسی ہراسمنٹ بالکل ہی نئی چیز ہے۔ یہاں شرمین کی اس بات سے تو اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ پیشہ ورانہ رویہ کا فقدان ہی ایک ڈاکٹر کو اپنی مریضہ سے فیس بک دوستی کی درخواست پر اکسا سکتا ہے لیکن اس بات کو اتنا زیادہ بڑھا چڑھا کا پیش کیا جانا اور شرمین عبید کے اپنی بہن کے ساتھ ہونے والے اس واقعہ کو جنسی ہراسمنٹ کے زمرے میں درج کیا جانا خود ان کے غیر پیشہ ورانہ رویہ کی عکاسی کرتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی بات کو غلط رنگ دیا گیا ہو اور یہ سب جان بوجھ کر اصل مسئلہ سے پہلو تہی کرنے کی ایک کوشش ہو۔

مجھے تو سوشل میڈیا پر ہونے والی اس طرح کی تقریبا ً تمام ہی بحثوں سے ایک سا تاثر ملتا ہے جیسے روم جل رہا ہو اور نیرو بانسری بجا رہا ہو۔ ذرا غور کریں شرمین عبید نے ایک ڈاکو منیٹری بنائی سیونگ فیسیز جو پاکستان میں گھریلو اور جاگیر داری تشدد کے نتیجے میں تیزاب سے متاثر خواتین کے بارے میں تھی جنہیں ڈاکٹر محمد جواد نے پلاسٹک سرجری کے ذریعے دوبارہ جینے کی نوید دی تھی۔ اس مسیحا کی بے لوث انسانی خدمات کے بارے میں کتنے لوگ جانتے ہیں

یا پھر ڈاکو منٹری میں فلمائے جانے والی ان خواتین کی حالت زار میں بہتری کے لئے کتنوں نے سوچا ہو گا جن کے چہرے خود ان ہی جیسی دوسری عورتوں نے محض سسرالی ہونے کی وجہ سے جھلسا دیے۔ ذکیہ جس کے شوہر نے اس کی آنکھ اور اس کا چہرہ مسخ کر کے اس کی زندگی کو جلتے ہوئے جہنم میں تبدیل کر دیا محض اس کے طلاق کے مطالبے پر معاشرے کی طرف سے فخریہ غیرت کے جذبہ سے مامور قرار دے دیا گیا۔ یہ ڈاکو منٹری ان بے چہرہ کر دینے والی عورتوں کے دکھ کو زبان دیتی ہے ہمیں اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ اس کو بنانے والی شرمین عبید کو مغربی میڈیا نے آسکر سے نوازا یا اس کے پیچھے اس کی پیسا کمانے کی کوئی خواہش ہو سکتی ہے۔ اگر پاکستان میں ایسی کوئی قانون سازی ہو جائے کہ بے گناہ ستائی ہوئی عورتیں انصاف پا سکیں تو اس میں شرمین عبید کی اس ڈاکو منٹری کا بھی ہاتھ ہو گا تو اس میں حرج ہی کیا ہے کہ اسے ہم بھی تھوڑا سا سراہ لیں اور شرمین کے موجود عمل کو اس ڈاکو منٹری بنانے کی پاداش میں معاف کر دیں کہ اس کی وجہ سے دنیا کی توجہ اس سلگتے ہوئے مسئلہ کی طرف مبذول ہوئی اور وہ عورتیں جو اپنا چہرہ بلا کسی جرم کے چھپانے پر مجبور ہیں آج بلا خوف و خطر دنیا کے سامنے آ سکتی ہیں۔ کوئی ان سے ڈرے گا نہیں۔ مجھے تو ذکیہ کی آواز اپنی کوئی بھولی بسری سہیلی سے مماثل نظر آئی جس کا سسر اسے جس انداز میں مخاطب کرتا ہے اور اس کے بارے میں جن کلمات سے نوازتا ہے وہ اس پورے خطہ میں موجود عورتوں سے متعلق ان کی بیمار ذہنیت کی نمائیندگی کرتے ہیں یعنی اس کے بیٹے نے جو کیا بالکل درست کیا اور ایسی عورتیں جو اپنے حق کا مطالبہ کرتی ہیں اسی سلوک کی مستحق ہیں جیسا ذکیہ، رخسانہ اور دوسری لڑکیوں کے ساتھ ہوا۔

بھلا ہو ڈاکٹر محمد علی جواد کا جو اپنی خدمات کو انسانی فلاح کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں، نے ایک قابل قبول چہرہ دے دیا ایک ایسا بیمار معاشرہ جس کے پیچھے کی متضاد کہانیاں بھی اسی بیمار ی کا ایک حصہ ہیں یہاں تک کہ شرمین عبید کی موجودہ ٹوئیٹ بھی اور اس پر اٹھنے والا غلغلہ بھی یعنی بات کی گہرائی میں جا کر اصل مرض کو پکڑنے کے بجائے نٹی گریٹیز یعنی جزئیات میں الجھ گئے اصل مسئلہ وہیں کا وہیں رہ گیا یعنی پیشہ ورانہ رویہ کا فقدان جس پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).