کیا سائنس کو کلمہ پڑھانا ممکن ہے؟


محترم برشوری صاحب نے مدارس کے نظامِ تعلیم پر جاری بحث پر ایک ’’اپالوجی‘‘ پیش کی ہے جس سے فریقین یقیناً فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی ناقص رائے پر ہرگز اصرار نہیں لیکن پہلی نظر میں یہی گمان ہوتا ہے کہ برشوری صاحب نے یہاں ایسی کئی بحثوں کو ایک ساتھ چھیڑ دیا ہے جو بیک وقت کئی دیدہ و نادیدہ جہتیں رکھتی ہیں۔ قبلہ برشوری صاحب نے جن نظر آنے والی ٹھوس جہتوں کی بابت کلام کیا ہے ان میں ایک جانب تو مذہبی علوم اور عصری علوم کے اپنے اپنے انفرادی دائرے ہیں جن میں یقیناً کئی تدریسی و تحقیقی مسائل ہیں اور دوسری جانب ان دائروں کے وہ مشترکہ عمرانی احاطے ہیں جہاں ان علوم کے رزائل و فضائل فرد تک پہنچتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فرد تک یہ ناگزیر فاصلہ طے کرنے کی صورت میں ان دائروں کا پھیلاؤ ایک جبری تاریخی عمل کا حصہ بن جاتا ہے۔

اول تو قبلہ برشوری صاحب کی ’’اپالوجی‘‘ اس مکمل تاریخی عمل کو ایک ہمہ گیر سماجی و علمی پس منظر کی بجائے مسلم معاشرت تک محدود کرتی ہے اور چونکہ ایک ’’اپالوجی‘‘ ہے لہٰذا اس تاریخی عمل کی جبری جہت کو دبے دبے الفاظ میں ایک المیہ گردانتے ہوئے ایک طرف تو دینی و عصری تعلیم کی تقسیم کو سامراج کے ذریعے خارج سے ہندوستان پر زبردستی وارد ہوتے دیکھنے پر مجبور ہے اور دوسری طرف برصغیر کے علمی و نظریاتی تنوع میں کوئی ایسا یک رخی فکری دھارا دیکھنے پر مجبور ہے جو برصغیر کی فکری اقلیم کو ایک اکائی کے طور پر متصور کر سکے۔

دوم، اس دائروی پس منظر کے قیام اور تحدید کے بعد اس ’’اپالوجی‘‘ کی دوسری مجبوری اس کے وہ بدیہی مفروضے ہیں جو لئے تو بظاہر ایک دائرے سے گئے ہیں لیکن دوسرے دائرے کو اپنے اندر سمونے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برشوری صاحب ایک ’’مسلمان کے زاویۂ نگاہ ‘‘ سے سائنسی علوم کا جائزہ لینے اورمذہبِ اسلام کے اعتقادی تناظر میں سائنس کو’’ نئے سرے‘‘ سے ’’مدون‘‘ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔

برشوری صاحب کی تیسری مجبوری سب سے دل شکستہ معلوم ہوتی ہے۔ ہم جیسے لنڈے کے کپڑوں میں ملبوس مذہبی علوم کی میراث کو سینے سے لگائے قارئین کو یہ مجبوری زیرِ متن دکھائی تو دیتی ہے لیکن اس کا نقشہ الفاظ میں کھینچنے کی ہمت محسوس نہیں ہوتی۔ گمان ہے کہ یہ ایک ایسا تناقض ہے جس سے محترم برشوری صاحب خود بھی کُلی طور پر واقف نہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ سائنسی علوم کے دائرے میں ’’مغرب‘‘ کی تقلید چھوڑ کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے متمنی ہیں یا پھر مستقبل کے علمائے دین کو ’’جدید معاشیات، سوشل سائنسز، جدید قانون، جدید فلسفہ و منطق، مغربی فلسفہ انسانیت، عالمی قوانین اور سائنس کا کچھ حصہ ”بشرطِ حفاظتِ ایمان“ پڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں تاکہ وہ نئی دنیا کی تخلیق میں پرانی دنیا کا مال مسالہ استعمال کر سکے؟

ہم دل شکستہ کھڑے ہیں۔ کبھی تو لگتا ہے کہ وہ ہمیں لنڈے کاکوٹ اتار پھینکنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور کبھی لگتا ہے کہ اسے رفو کرنے کے لئے جھوٹ موٹ کا کوئی سوئی دھاگہ تھما رہے ہیں!
ہماری رائے میں اس اپالوجی کی ان تینوں مجبوریوں کو مختصراً تین مختلف گرہیں کھولنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تین گرہیں علمیاتی، وجودیاتی اور عمرانی تناظرت سے متعلق ہیں۔ پہلے دو یعنی علمیاتی اور وجودیاتی تناظر کچھ ایسے بنیادی سوالات کے حامل ہیں جن کے جوابات تیسرے تناظر کی تشکیل کرتے ہیں۔ علمیاتی تناظر کے سوالات زیادہ تر نظریاتِ علم، ماہیتِ اعتقاد اور دعویٰ ہائے حق و باطل کے جواز سے متعلق ہیں۔ دوسری طرف وجودیاتی سوالات کا تعلق تصورِ انسان، تصورِ انسانیت، تصورِ کائنات، تصورِ خدا اور تصورِ حیات و موت سے متعلق ہے۔ یہ دونوں تناظر باہمی تال میل سے حقیقت کی معنویت دریافت کرتے ہیں اور ایک مخصوص عمرانی تناظر کی تشکیل کرتے ہیں جہاں سیاسی، سماجی اور معاشی دائروں میں دریافت شدہ یا قائم شدہ آدرشِ حقیقت کی تشکیل کی کوشش کی جاتی ہے۔

راقم ایک فکری فقیر ہونے کے باعث اس قابل تو نہیں کہ اس مسئلے کے خدوخال کو واضح کرنے کی جانب کچھ واضح اشارے کر سکے لیکن کم از کم اس حد تک دعویٰ کرنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ صدیوں پر محیط حقیقت کی تشکیل کا یہ مکمل عمل لازماً ایک ایسے بازافزائشی اور غیرخطی سفر کا حصہ ہے جو کُل انسانیت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ وجودیاتی سوالات انسانیت کے مشترکہ سوالات ہیں اور مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں نہ صرف ان سوالات کو اپنے اپنے علمیاتی انداز میں وضع کرتی آئی ہیں بلکہ اپنے دریافت کردہ جوابوں کے ذریعے حقیقت کی تشکیل اور اس کی کائناتی بڑھوتری کی کوشش بھی کرتی آئی ہیں۔ علم اور طاقت کے بدلتے رشتوں اور سامراجی و نیم سامراجی عزائم کی تاریخ کم و بیش انسانیت کی تاریخ جتنی ہی قدیم ہے۔ صنعتی انقلاب اور یورپ میں علمی انقلابات کے بعد نوآبادیاتی سامراج کے واقعے کو کو تاریخی جبر کہہ لیا جائے یا کونیاتی جبر، بہرحال یہ کُل انسانیت کی تہذیبی تشکیل کے سفر میں ایک پڑاؤ سے زیادہ نہیں۔ تہذیبی تشکیل کے اس سفر کی خطی تحدید کے بعد اس کو کسی بھی یک رخی دھارے میں قید کرنے کی کوشش کا مقدر بہرحال ایک ایسی ناکامی ہے جس کی گواہ خود تاریخ ہے۔

اس کی سادہ وجہ یہی ہے کہ تہذیبی لین دین کا عمل وجودیاتی اور علمیاتی جہتوں میں انسانی خاکہ بندی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ صرف اور صرف عمرانی جہتوں میں افادیت پسندی کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ جس تصورِ عدد پر الخوارزمی کا الجبرا وضع ہوا وہ بنیادی طور پر یونانی اور ضمنی طور پر ہندآریائی تہذیب کا عطا کردہ ہے۔ جس تصورِ زمان و مکاں اور ریاضیاتی لامتناہیت نے بالآخر شے کو مکمل طور پر اپنے قابو میں کر لینے کا آدرش متعین کیا وہ یورپی تہذیب کا وضع کردہ ہے۔ مدارس کے نصاب کی بحث میں شامل تمام فریقین’’مذہب ‘‘ کی جس اصطلاح کا بے دریغ فطری استعمال کر رہے ہیں وہ بھی اپنے عمرانی، تفاعلی، مظہری اور فلسفیانہ، غرض ہر ہر ممکنہ معنی میں اسی مغربی تہذیب کی عطا کردہ ہے جس کے مقابل کسی تصوراتی ’’اسلامی‘‘ تہذیب یا ’’مذہبی‘‘ تناظر کو فرض کیاجا رہا ہے۔ ’’مذہب‘‘ یا ’’ریلیجن‘‘ کی یہ اصطلاح انیسویں صدی کے اولین بشریاتی مطالعوں سے لے کر تاحال بحث طلب ہے اور تشکیل و تنقید کے عمل سے گزر رہی ہے۔ ان مطالعوں کی نتیجے میں عمرانی سطح پر وہ دو معروف دائرے وجود میں آئے ہیں جو نہ صرف تقدیسی و غیر تقدیسی خانوں میں اپنے اپنے علامتی نظام اور مجموعۂ تصورات رکھتے ہیں، بلکہ خالص عقلی سطح پر بھی ایک ایسے علمی منہج کو متعارف کرواتے ہیں جسے عرفِ عام میں سائنسی منہجِ استدلال کہا جاتا ہے۔ صنعتی انقلاب نے اسی منہج پر جس سائنسی ثقافت کو فروغ دیا وہ اب علت و معلول کے تمام قدیم نظام کو ایک کھنڈر میں تبدیل کر نے اور علمیاتی و وجودیاتی سطح پر تبدیلیوں کے بعد عمرانی دائرے میں حقیقت کی ایسی تشکیل کر چکی ہے جس میں کسی ایسے یوٹوپیا کو متعارف نہیں کروایا جا سکتا جس کی تعمیر اسی پرانے کھنڈر پر کی جا سکے۔

اس پس منظر میں محترم برشوری صاحب اپنی تمام تر موضوعی تحدیدات کے ساتھ مدارس کے نصاب میں جس تجدید کی ضرورت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں وہ یقیناً مغربی تہذیب کے عطا کردہ ’’مذہبی تناظر‘‘ کے دائرے میں تو معنی خیز اور مفید ہے لیکن اس وقت تک ’’سائنسی تناظر‘‘ کے دوسرے دائرے میں ردوبدل کا مطالبہ کرنے کا مجاز معلوم نہیں ہوتا جب تک کسی مشترکہ منہجِ فکر پر اتفاق پیدا نہیں ہو جاتا۔ پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ کیا مغربی اقوام سے مقابلے کی دوڑ کا یہ جدید تناظر خود مغرب سے درآمد شدہ نہیں؟ آخر فرانسس بیکن کا قول کہ’’علم طاقت ہے‘‘ کس قسم کی ’’طاقت‘‘ کو پیش قیاس کرتا ہے؟ کیا اقوامِ عالم کے درمیان ترقی کی دوڑ قومیائی ریاستوں کے اس تصور کو اپنا جواز نہیں بناتی جو’’مسابقت‘‘، ’’بقاء‘‘ اور ’’توسیع‘‘ کی ڈاروینی اساس پر کھڑا ہے؟

لہٰذا ہماری رائے میں نصابی تبدیلیوں اور ایک مشترکہ نصاب کی جانب پیش قدمی کے تناظر میں یہاں صرف ’’ مسلمان کے زاویۂ نگاہ‘‘ سے نظر ڈالنے اور ’’اسلامی نقطۂ نگاہ سے تدوینِ نو‘‘ سے کوئی ایسا بامعنی فرق تو کیا مکالمے کا آغاز ہونا بھی ناممکن ہے۔ یہ مکالمہ صرف انہی غیر مشروط بنیادوں پر ممکن ہے کہ الہامی متون اور مقدس مذہبی روایات و آثار سے حاصل شدہ ’’علم‘‘ کو بھی ایک مشترکہ منہج میں ’’اعتقادی مفروضوں‘‘کے طور پر تسلیم کیا جائے اور پھر تجرباتی سطح ثابت کرنے کی داغ بیل ڈالی جائے۔ لیکن یہ اعتراف اس سے کہیں زیادہ دلیری کا متقاضی ہے جو ’’تجدید‘‘، ’’ترمیم‘‘ یا ’’تحقیق‘‘ جیسی اصطلاحات میں پائی جاتی ہے۔ دوسری طرف سائنسی متون و روایات سے حاصل شدہ’’ علم‘‘ کی تدریس پہلے ہی ایسے ’’اعتقادی مفروضوں‘‘ کے طور پر کی جاتی ہے جو تجربہ و تحقیق کے لئے ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ اس دائرے میں موجود مسائل کا تعلق دلیری نہیں بلکہ درست منہجی تنصیب اور اساتذہ اور طلباء کی دیانتداری اور محنت سے ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ منہج مغرب بالخصوص یورپ کا ہی عطا کردہ ہے اور کُل انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔

یوں اگر ایک تناظر میں تجربہ گاہی اصول ریاضیاتی استدلال، منطقی استخراج اور استقراء اور مشاہدہ ہیں تو دوسرے تناظر میں یہ الہامی تعبیرات، فلسفیانہ مباحث اور عملی عبادات ہیں۔ اگر ایک صورت میں تجربہ گاہ ایک ممکن اللمس سائنسی لیبارٹری ہے تو دوسری صورت میں تجربہ گاہ انسان کا غیرمرئی اخلاقی وجود اور نفسیاتی تسکین ہے۔ یہاں جسم و روح، طبیعات و مابعدالطبیعات، عشق و عقل اور ظن و قطیعت کی دوئیاں با الآخر شکست خوردہ انسان کے چند ایسے ناگزیر سمجھوتے ہیں جو بس نفسِ بحث سےکنی کترا کر گزرنے کے بہانے یا عقل کی عاجزی کا اعتراف ہیں۔ مدرسی و غیرمدرسی نصاب کی بحث کا درست تناظر اس امکان کی دریافت ہے کہ ان دونوں تجربہ گاہوں سے معنی کی مٹی لے کر کیوں کر ان دوئیوں سے نبٹا جا سکتا ہے اور ایک ایسی حقیقت کی تشکیل کی جا سکتی ہے جو اپنی آخری صورت میں ایک اکائی کے طور پر بامعنی ہو۔


اسی بارے میں

برصغیر کے دو متوازی نظام تعلیم اور ہماری علمی زبوں حالی

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments