اسلام آباد کی ایک مشکوک سی محفل کی روداد


بوجوہ راول پنڈی میں قیام بڑھ گیا ہے؛ کراچی دِل میں بستا ہے پر یہاں سے بہت دُور دکھائی دیتا ہے؛ پاوں میں کچھ بیڑیاں ہیں، اے کراچی، ذرا ٹھیر جانا! اتوار کو اسلام آباد میں سبوخ سید کے گھر چند دوستوں کا اجتماع ہوا۔ وسی بابا، خواجہ محمد کلیم، طاہر ملک اور یہ خانہ بدوش۔ میرا خیال تھا عاشقوں کا اجتماع ہوگا، لیکن نورانی پر حملہ، نواز شریف کی اہلیت کے بعد کی صورت احوال، حکومت کا چل چلاؤ، نادیدہ و دیدہ قوتوں کی چالیں، عمران خان کے وزیراعظم بننے کے امکانات، یونی ورسٹیوں کے حالات، ”ہم سب“ میں عدنان خان کاکڑ کی آمرانہ پالیسی اور دیگر غیر حاضر دوستوں کی غیبت تک سب موضوعات زیرِ بحث آئے۔

طاہر ملک تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، انھوں نے ”ہم سب“ کی تعریف کرتے ہوئے یہ گلہ بھی کیا، کہ موضوعات محدود ہوکے رہ گئے ہیں۔ وسی بابا نے ”ہم سب“ کی خوب وکالت کی، اور ذہین سیاست دان کی طرح طاہر ملک صاحب کو اس بات پر قائل کرلیا، کہ وہ اُن موضوعات پر قلم اٹھائیں، جن موضوعات پر وہ سمجھتے ہیں، کہ لکھا جانا چاہیے۔ باتوں ہی باتوں میں طاہر ملک نے یہ قصہ سنایا، کہ یونی ورسٹی میں ایک ذہین طالبہ تھی، بیرون ملک سے آئی تھی، انداز و اطوار بھی مغربی تھے، اس پر مستزاد وہ سگریٹ پیا کرتی تھی۔ طاہر ملک صاحب کے پاس، اُس طالبہ کا پیپر چیک ہونے کے لیے آیا؛ تمام جوابات درست تھے، اچھے مارکس دیے، تو ساتھی پروفیسر نے اعتراض اٹھایا کہ اسے زیادہ مارکس کیوں دیے ہیں، یہ تو سگریٹ پیتی ہے۔ طاہر ملک نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس معاشرے میں جس کے ہاتھ میں بھی قلم ہے، وہ متعصب ہے۔ قلم بردار میرٹ کی بنا پر نہیں، اپنے تعصب کی بنیاد پر قلم پھیرتا ہے۔

یونی ورسٹی میں طلبا تنظیموں کے ہونے نہ ہونے پر، سبھی ایک نکتے پر متفق تھے کہ طلبا یونین بنانے کی اجازت ہونا چاہیے، لیکن طلبا یونین کی موجودہ شکل قبول نہیں۔ ہر مسئلے پر بحث کرتے آخری نکتہ یہی سامنے آیا کہ قانون کا سب پر یکساں اطلاق نہیں ہوگا، تو کسی شعبے کے بگاڑ کو دور نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں اصل سوال قانون کی حکمرانی کا ہے، المیہ سماجی انصاف کا نہ ہونا ہے۔

سبوخ سید چوں کہ میزبان تھے، تو وہ سبھی کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ اچھے میزبان کی یہی خوبی ہوتی ہے۔ خواجہ کلیم بہت کچھ کہنا چاہتے تھے، کہتے کہتے رُک جاتے تھے، مجھے یہی شبہہ رہا کہ وسی بابا کی سحرانگیز شخصیت سے متاثر ہوکے ہکلا جاتے رہے ہیں۔ وسی بابا ہر وقت ٹوہ میں رہتے ہیں، کہ ”خبر“ کہاں سے ملے۔ سبوخ سید کو گدگدی کرکے ٹٹولتے رہے، کہ دونوں کی beat ایک ہی ہے۔ وسی بابا کا کہنا تھا، کہ طالبان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پختون کلچر بھی ہے۔ مثال دیتے سمجھایا، کہ وہاں کسی بھی بات پر تکرار ہوجائے، تو یوں لفظوں سے حملہ کرتے آغاز کیا جاتا ہے کہ ”تیرے دین کی۔ “، تیرے عقیدے کی۔ “ پھر دست و گریبان ہوتے ہیں۔ مدعا یہ تھا کہ پختونوں کو دین کے نام پر بلیک میل کرنا آسان نہیں، اگر پختون حائل نہ ہوتے تو طالبان اسلام آباد میں براجمان ہوتے۔

جب کراچی میں دن کی ابتدا ہوتی ہے، تب اسلام آباد میں رات ہوجاتی ہے۔ اس شب سبوخ نے پرتکلف عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ چلتے چلتے شرمین عبید چنائے اور خواتین کو ہراساں کیے جانے کے موضوع پر بات ہوئی، کہ وہ خواتین جو کہتی ہیں، ”نہیں! ہمیں اس لیے توجہ نہیں دی جاتی کہ ہم خاتون ہیں، ہمیں اس لیے سراہا جاتا ہے کہ ہم قابل ہیں؛ وہ بھی یہ شکوہ کرتی دکھائی دیتی ہیں، کہ انھیں خواتین سمجھ کے ہراساں کیا جاتا ہے۔ “ کسی کو بھی ہراساں کیا جانا کسی طرح لائقِ تحسین نہیں، وہ خواتین ہوں یا صحافی؛ لیکن کیا کیجیے کہ اس ملک میں خواتین محفوظ ہیں، نہ مرد، نہ بچے، نہ بچیاں؛ نہ صحافی، نہ حکومتیں۔ جس ریاست میں ریاستیں جنم لے چکی ہوں، ان کی آپس کی لڑائیاں‌ ہوں، وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں۔ سماجی انصاف ناپید ہوجائے تو ریاست میں بسنے والے شہری اپنے اپنے گروہ بناکے اپنا تحفظ کرتے ہیں، اپنے قوانین بناکے چلتے ہیں؛ ایسے ملک کو پس ماندہ ملک کہتے ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran