تحریک لبیک کے اشرف جلالی اور خادم رضوی میں اختلافات کی خبریں


مملکت خداداد کی تاریخ ہی کچھ ایسی ہے تحریکیں شروع ہوتی ہیں، کارکن قربانیاں دیتے ہیں، تحریک اپنے جوبن کو پہنچتی ہے اور پھر تحریک کے قائدین پلاٹوں اور فنڈز کے عوض کارکنوں کو سر راہ چھوڑ کر گھروں کی راہ پکڑتے ہیں۔ ایسا ایک بار نہیں بار بار ہوا ہے اور بیچارے سادہ عوام ہر بار قیادت کے مفادات کی بھینٹ چڑھے۔ یہاں تو عوام کے جذبات ابھارنے، خون گرمانے، اشتعال دلانے، تشدد کروانے، ان کو بیوقوف بنانے، ان کو لوٹنے غرض کہ ہر ایک کام کے لئے ان کی دین کے ساتھ غیر معمولی وابستگی اور محبت کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کوئی اور راستہ نا بچے دین کے نام پر لوگوں کو استعمال کر لو۔

تحریک لبیک شروع ہوئی، قیام کا مقصد بہت ہی مقدس تھا اور ہے لیکن مذہبی قیادت نے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی مایوس کیا۔ مذہبی قیادت کو ہمیشہ سے ہی اپنے نام کے ساتھ سابقے لاحقے لگانے کے ساتھ ساتھ قبلہ، قائد کہلوانے کا شوق ہوتا ہے۔ تحریک کا صدر کون، ریلی کا امیر کون؟ اسلامی تحریکوں کی قیادت تو ان باتوں پر ایک دوسرے کے درپے ہو جاتی ہے۔ مذہبی قیادت میں اتفاق و اتحاد کی بہت ہی کمی ہوتی ہے اسی وجہ سےآج ہر کوئی اپنی جماعت بنا کر صدر بنا بیٹھا ہے اور یہی خامیاں اس طبقے سے عوام کا اعتماد اٹھنے کا سبب بنیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ بیس کروڑ مسلمانوں میں سے صرف تین سو ختم نبوت کے لئے نکلے؟ کیا باقیوں کا ایمان کمزور ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ نبیؐ سے محبت ہم سب کے ایمان کا حصہ ہے لیکن اکثریت کو قیادت پر اعتماد نہیں۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بانی ڈاکٹر اشرف آصف جلالی تھے۔ اس وقت تحریک کو کافی پذیرائی ملی لیکن بعد میں پیر خادم حسین رضوی صاحب نے تحریک کو ہائی جیک کر لیا اور خود فرنٹ سیٹ پر آ کر بیٹھ گئے۔ ان کی گالم گلوچ اور بازاری زبان استعمال کرنے کی وجہ سے تحریک کو کافی نقصان پہنچا اور مقبولیت میں کمی آئی۔

اطلاعات کے مطابق ختم نبوت کے حوالے سے آئین میں ترمیم اور رانا ثناء اللہ کے بیان کے بعد جو مارچ کیا گیا اس میں پیر خادم حسین رضوی اس وجہ سے شریک نا ہوئے کہ تحریک کی صدارت اور ریلی کی قیادت مجھے دی جائے۔ جہلم پہنچنے پر یہ تنازع اتنا بڑھ گیا کہ پیر خادم حسین رضوی پنے حامیوں کو لے کر مارچ سے الگ ہو گئے۔ یہ موقع تھا جس نے مارچ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور حکومت ڈٹ گئی کہ یہ لوگ خود ہی آپس میں لڑ کر چلے جائیں گے۔ خبریں آ رہی ہیں کہ پیر خادم حسین رضوی اہم معاملات پر مشاورت نہیں کرتے اور تحریک کی پالیسی سے ہٹ کر چلتے ہیں۔ الزام لگانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پیر خادم حسین رضوی اور شہباز شریف میں معاملات طے کیے جا چکے ہیں اور اس کا پھل پلاٹوں اور سرکاری فنڈز سے بڑھ کر ہے۔

اب ذرا سوچیں آپ نے ختم نبوت کی جنگ لڑنی ہے تو آپ نے عہدہ کیا کرنا ہے؟ اب یہ ختم نبوت کی تحریک تو نا رہی یہ تو اپنے نام اور مفادات کی تحریک ہوئی۔ افضل قادری اور پیر خادم حسین رضوی صاحبان اگر ختم نبوت کے لئے لڑتے ہوتے تو آج اسلام آباد ہوتے۔ آپ کو عہدے سے کیا لینا دینا۔ آپ اپنے ایک عہدے کو نبیؐ کی ناموس پر ترجیح دے کر گھر چلے گئے۔ یہی وجوہات تو عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔ وگرنہ ختم نبوت تو ایسا موضوع ہے جس پر امت مسلمہ متفق ہے لیکن اس وقت فضل الرحمان، سراج الحق، حافظ سعید، طارق جمیل و دیگر صاحبان کدھر ہیں؟ کیا انہیں ختم نبوت سے کوئی سروکار ہیں یا اس تحریک سے انہیں کوئی فائدہ نہیں۔ یقینا انہیں معلوم ہے کہ انہیں اس تحریک سے کوئی ذاتی فائدہ حاصل نا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).