کہاں ہیں قائد اعظم کے پیروکار؟


کچھ عرصہ قبل انتخابی اصلاحات کا قانون منظور ہوا۔ ان انتخابی قوانین میں ترامیم کے بل کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بہت سی تقاریر کی گئیں۔ کچھ تقاریر میں بعض مذہبی پہلوؤں کو بھی نمایاں کر کے بیان کیا گیا۔ بہر حال ہر ایک کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن جب قومی اسمبلی میں کوئی تقریر ہو تو پھر پوری قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ اس پر تبصرہ کرے۔ لیکن دلائل اور معقولیت کے ساتھ۔ محض نفرت انگیزی کے لیے نہیں بلکہ حقائق کو سامنے لانے کے لیے۔ ہم تمام بحث کو ایک طرف رکھ کر صرف ایک پہلو پر تبصرہ کریں گے۔

جب پہلی مرتبہ ترامیم کا بل منظور کیا گیا تو شیخ رشید صاحب نے بڑے جوش سے ہوا میں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا”کہاں ہیں عطا اللہ شاہ بخاری۔ کہاں ہیں احرار کو ماننے والے۔“ اس طرح انہوں نے عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب اور مجلس احرار کے حامیوں کی غیرت کو جگا کر اپنی مدد کے لیے بلایا۔ اس کے بعد 10 اکتوبر 2017 کو کیپٹن(ر) صفدر صاحب نے بھی قومی اسمبلی میں ایک تقریر کی اور اس میں بھی عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب کا بہت محبت سے ذکر کیا۔ مناسب ہوگا کہ اگر ہمارے ارکان اسمبلی اور عوام کو علم ہو کہ عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب اور ان کی جماعت مجلس احرار کے پاکستان، مسلم لیگ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے متعلق کیا خیالات تھے؟ ہم صرف چند حوالے درج کردیں گے، پڑھنے والے اپنی رائے خود قائم کر سکتے ہیں۔ مجلس احرار ایک نیم سیاسی اور نیم مذہبی جماعت تھی۔ اور عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب اس تنظیم کے قائد اور بانی تھے۔ کسی بھی جماعت کے سالانہ اجلاس کا خطبہ صدارت اس کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ جب مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق اور پاکستان کے حصول کے لیے جد و جہد کر رہی تھی ان برسوں میں مجلس احرار کے خطبہ صدارت کے چند حوالے ملاحظہ ہوں۔

”لیگ کے ارباب اقتدار جو عیش کی آغوش میں پلے ہیں۔ اسلام جیسے بے خوف مذہب اور مسلمانوں جیسے مجاہد گروہ کے سردار نہیں ہو سکتے، مُردوں سے مرادیں مانگنا اتنا بے سود نہیں۔ جتنا لیگ کی موجودہ جماعت سے کسی بہادرانہ اقدام کی توقع رکھنا۔ “(خطبات احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر احرار پبلیکیشنز لاہور  1944 ص22)

”ارباب بصیرت غور کریں کہ لیگ میں بجزسرمایہ کی کشش کے رکھا ہی کیا ہے۔ قربانی و ایثار سے لیگ کا جیب و دامان ابھی تک تہی ہے۔  “(خطبات احرار جلد اول ص 22)

”پاکستان کی خواہش کو لے کر انگریز کے پاس جاؤ۔ وہ خوش قسمتی پر ناز کرے گا تم لعل کے عوض کوئلے لینے آئے ہو۔ “(خطبات احرار جلد اول ص 34)

”احرار اس پاکستان کو پلیدستان سمجھتے ہیںج ہاں امراء بھوک کو چورن سے بڑھاتے ہوں اور غریب غم کھاتے ہوں۔ (خطبات احرار جلد اول ، ص 38)

”لیگی عمارت ریت کی دیوار پر ہے مگر کانگرس قوت عمل کے باعث ہندو کا مضبوط قلعہ“ (خطبات احرار جلد اول ،ص 29)

”ہم نے لیگ میں دو دفعہ گھسنے کی کوشش کی تاکہ اس پر قبضہ جمائیں دونوں دفعہ قائدے اور قانون نئے بنا دئے گئے ، تاکہ ہم بیکار ہو جائیں۔ “ (خطبات احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر احرار پبلیکیشنز لاہور  1944ص 59)

”دوسری طرف لیگی افراد اسلامی نہیں بلکہ یورپی تہذیب کو پاکستان کی خیالی حدود میں پھیلانے اور اس کا اقتدار جمانے کے لئے بیتاب ہوں گے۔ “(خطبات احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر احرار پبلیکیشنز لاہور  1944ص 98  و 99)

”احرار دوستو! اپنا ایمان مضبوط رکھو !جماعت کی وفاداری کو مقدم رکھو۔ کوئی تمہیں سرمایہ دار لیگ کا ایجنٹ بن کر لیگ کی طرف بلائے گا۔۔ “ (خطبات احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر احرار پبلیکیشنز لاہور  1944 ص100)

”ہمیں پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے دام فریب میں نہ پھنساؤ۔۔ “(خطبات احرار جلد اول ، مرتبہ شورش کاشمیری ، ناشر احرار پبلیکیشنز لاہور  1944ص 101)

اب جائزہ لیتے ہیں کہ عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب کے نظریات کیا تھے

انہوں نے پاکستان بننے کے بعد ایک تقریر میں کہا” پاکستان ایک بازاری عورت ہے جسے احرار نے مجبوراَ قبول کیا ہے (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب  1953ص572)

خود مجلس احرار کی لکھی ہوئی کتاب ”حیات امیر شریعت “ میں لکھا ہے کہ جب ایک مرحلہ پر حسین احمد مدنی صاحب نے وقتی طور پر مسلم لیگ کی حمایت کا فیصلہ کیا تو عطا ءاللہ شاہ بخاری صاحب نے ان سے شکوہ کیا ”کل تک آپ خود ہمیں درس دیتے رہے کہ مسلم لیگ سرکار پرستوں کی ٹولی ہے۔ “(حیات امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا ، پبلشر مکتبہ تبصرہ لاہور، 1949ص 752)

مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان پر بخاری صاحب نے کہا ”اس کے علاوہ اگر آپ نے کوئی زمین حاصل کر بھی لی، تو جو نظام آپ قائم کریں گے ، وہ انسانوں کا بنا ہوا ہو گا جس کی ہر شق کفر کے آئین سے مآخذ ہو گی۔ “(حیات امیر شریعت ص 343 ،344)

بخاری صاحب نے یہ قرارداد پیش کی

”مسلم لیگ کی قیادت قطعی غیر اسلامی ہے۔ اس کا عمل آج تک ملت اسلامیہ کے مفاد کے منافی رہا ہے۔ “(حیات امیر شریعت ص۵۵۳)

جب تحریک پاکستان چلائی جا رہی تھی تو بخاری صاحب نے کہا”تحریک پاکستان کی قیادت کرنے والوں کے قول و فعل میں بنیادی تضاد ہے۔۔۔۔ جو لوگ اپنی اڑھائی من کی لاش اور چھ فٹ قد پر اسلامی قوانین نافذ نیں کر سکتے جن کا اُٹھنا بیٹھنا ، جن کا سونا جاگنا ، جن کی وضع قطع ،رہن سہن ، بول چال ، زبان لباس غرض کوئی چیز اسلام کے مطابق نہ ہو وہ ایک قطعہ زمین پر اسلام کیسے نافذ کریںگے۔ “(حیات امیر شریعت ص363و 364)

قائد اعظم کو ایک جلسہ میں مخاطب کر کے کہا”ان دس کروڑ مسلمانوں کو کسی طرح کا نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہوگی۔ “(حیات امیر شریعت ص153)

پھر قائد اعظم پر الزام لگایا کہ وہ مسلمان اکثریت کا علاقہ سکھوں کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ (حیات امیر شریعت ص354)

مجلس احرار اور عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب کے پاکستان، تحریک پاکستان چلانے والوں اور قائد اعظم کے بارے میں کیا خیالات تھے۔ ہم نے صرف چند حوالے درج کر دیئے ہیں۔ ہم نے کوئی تبصرہ بھی نہیں کیا۔ ان کا مطلب واضح ہے۔ عطاءاللہ شاہ بخاری صاحب کا دم بھرنے والوں نے تو قومی اسمبلی میں اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ہے۔ ہمارا آخر میں صرف ایک سوال ہے ” قائد اعظم محمد علی جناح کے پیروکار کہاں ہیں؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).