پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا


 

پاکستانی سیاست ہے کہ دیگچی کا ابال، ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا، اتار چڑھائو تو خیر شروع سے ہی پائوں پائوں چلتی جمہوریت اور دوڑتی بھاگتی آمریت کا شیوہ رہا ہے لیکن کبھی کبھار برسوں تک سیاسی دیگچی میں ابال نہیں آتا اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ بیچاری کو ابلتے ابلتے اندر باہر سے کالا ہونا پڑتا ہے۔ اب اس میں قصور کس کا کہئے اندر سے جلاتے جمہوری متنجن کا یا پھر نیچے سے جھلساتی آگ کا۔ اب اس کی تشریح کو ایک طرف رکھے دیتے ہیں۔ البتہ یوں سمجھ لیں کہ سیاسی دیگچی کا متنجن تحریک انصاف، مسلم لیگ (ہر قسمی) پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی وغیر ہ وغیرہ اور نیچے جلتی جھلساتی آگ کو آپ کسی کو جانب اشارہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ یار لوگوں کے مطابق اب پاکستانی سیاست کا عجب موڈ بن چکا ہے ہر دس سال کے بعد نظام پلٹا کھاتا ہے کبھی دس بارہ سال کے بعد بی جمہوریت خود ہی اپنی بڑی بہن آمریت کیلئے راستہ چھوڑ دیتی ہے تو کبھی بی آمریت تنگ آ کر یا تنگ کئے جانے کے بعد خود ہی اپنی چھوٹی بہن کے لئے راستہ ہموار کر دیتی ہے لیکن یاران سیاست کہتے ہیں کہ چھوٹی بہن چونکہ فی الحال دو تین ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوئی ہے اس لئے یہ دو تین ہاتھ اپنی باریوں کے بعد جب یہ سمجھنے لگتے کہ عوام میں ان کی مقبولیت متاثر ہو رہی ہے اور وہ اپنے دور میں کچھ نہیں کر سکے سوائے ”گلاس توڑا سولہ آنے ” کے، سو ان دونوں کی خواہش ہوتی کہ اس سے پہلے کہ اگلی باری کسی تیسرے کے ہاتھ لگے کیوں نہ بڑی بہن کیلئے راہ ہموارکردی جائے ۔ پہلے ادوار میں تو بڑی بہن فوراً ہی اشارے پر چلی آتی تھی لیکن اب زمانہ بہت بدل چکا ہے، بڑی بہن نے جان لیا کہ ”آٹا کھاتا بندر ہے اور منہ پر بکرے کے لگا کر اسے ہی ملزم ٹھہرا دیتا ہے” چھوڑئیے چھوڑئیے اس کہانی کو خالی جگہ تصورکرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں اب یہ خالی جگہ کب پر ہوگی؟ یہ سوال اپنی جگہ چھوڑ کر ہم آگے بڑھتے ہیں کہ فی الحال پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ الا ماشااللہ طرح طرح کے باورچیوں اور متنجن قسم کے الم غلم کھانوں سے بھرا ہوا ہے، آپ مسلم لیگ کو بڑا یا ہیڈ باورچی اور دو چھوٹے معاون پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو تصور کر لیں اب ہوتا یوں ہے کہ بڑا باورچی متنجن کی تیاری کے دوران کسی کام سے باورچی خانہ سے نکلا تو پیچھے موجود دو معاون باورچیوں نے کبھی نمک تیز کردیا تو کبھی مرچ، کبھی مصالحوں کا حجم بڑھا دیا تو کبھی گھی سے دیگچی یا دیگ کو بھر دیا۔ فی الحال تو بڑا یعنی ہیڈ باورچی پریشان ہے کیونکہ اس ہیڈ باورچی کے قبیلے کے ایک بڑے کو بڑے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے چونکہ اس کا باقی دونوں باورچیوں سے ”میل ملاپ ” بھی اچھا نہیں اس لئے وہ خود کو خطرے کے حصار میں تصور

سیاست اورسیاسی میدان تو خیر سے گرم سرد رہتے ہی ہیں لیکن دیگر کئی حوالوں سے بھی کئی رنگ رنگیلیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔ کبھی وینا ملک، کبھی میرا، کبھی قندیل بلوچ، رہی سہی کسر کوئی نہ کوئی مشہور شخصیت پوری کردیتی ہے، پچھلے دنوں ایک آسکر ایوارڈ یافتہ خاتون کا قصہ بڑے زور پر رہا بلکہ زور آور خاتون کے زور جبر کی کہانیاں عام رہیں۔ عموماً سوشل میڈیا کو بے لگام تصور کیا جاتا ہے کہ جس کا من چاہے جس طرف چاہے وہ اپنی خواہشات کے گھوڑے دوڑا دیتا ہے سو ایک ڈاکٹر بھی اپنی خواہش کا گھوڑا دوڑاتے ہوئے ملازمت سے محروم ہو گیا، ذمہ دار خاتون کے حوالے سے کہا گیا کہ اس نے اپنی شہرت یا تعلقات کا خوب فائدہ اٹھایا، چند دن قبل ہی ایک خاتون کی طرف سے اپنے ”کمانڈر” پر واہیات میسجز بھیجنے کا معاملہ اٹھایا گیا بڑی لے دے ہوئی، اب ایک اورخاتون کی طرف سے اپنی بہن کو فیس بک پر فرینڈز ریکوئسٹ بھیجنے کی پاداش میں ڈاکٹر کومعطل کرانا پڑا۔ اب توفیس بکی یاران محفل کاخیال ہے کہ وہ دونوں کاموں سے توبہ تائب ہونے جا رہے ہیں یعنی نہ تو فیس بک پر کسی اصل والی یا نقلی خاتون (خواتین کی فیک آئی ڈیز کے پیچھے بھی مرد چھپے ہوتے ہیں) کو کوئی واہیات میسجز بھیجیں گے نہ ہی کوئی ذومعنی بات کریں گے نہ ہی کسی شہرت یافتہ خاتون کو فرینڈز ریکوئسٹ بھیجیں گے، ہمارے قریب بیٹھا ایک شرمیلا اورکم سن مگرحسین نوجوان بول اٹھا ”اگر کوئی خاتون ہمیں واہیات میسج بھیجے تو پھر؟ وہ کسی کے جواب کا انتظار کئے بغیر بولا اور کوئی شہرت یافتہ خاتون ہماری تصاویر اور کچھ ادائوں سے متاثرہوکر ”فرینڈز ریکوئسٹ” بھیجے توہم کیا کریں، اگر ہم شورکریں گے تو الٹا ہماری ہی بدنامی ہو گی؟ اب اس نوجوان کی باتوں کا ہمارے پاس کیا جواب یا جواز؟ لہٰذا اس یک طرفہ بہتی رو کو چھوڑتے ہوئے اگر واپس سیاست کی طرف چلا جائے تو بہترہو گا کیونکہ تصور کر لیا گیا ہے کہ سیاست اور سیاستدانوں کی دھجیاں اڑا دو کوئی کچھ نہیں کہے گا لیکن اگر کسی دوسرے شعبہ کی طرف آنکھ اٹھا ئی تو پھر خیر نہیں، سو باقی شعبوں سے فی الوقت صرف نظر کرتے ہیں کہ فی زمانہ ہمیں اپنی جان پیاری ہے سو انہی کا ذکر کریں جن کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ آپ بے شک کئی کئی صفحات سیاستدانوں کے کرتوتوں پر لکھ لکھ کر کالے کرتے رہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا البتہ دائیں بائیں، اوپر، نیچے کسی اور جانب دیکھنے کی اجازت نہیں، خبردار؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).