ملی مسلم لیگ، تحریک لیبک اور شرمین عبید چنائے


لاہور کے ضمنی الیکشن میں محترمہ کلثوم نواز کے مدمقابل امیدواروں میں دو نئی سیاسی پارٹیوں تحریک لیبک پاکستان اور ملی مسلم لیگ کے امیدوار بھی میدان میں اترے۔ انتخابی اشاریے بتاتے ہیں کہ مذکورہ نئی سیاسی جماعتوں کے دونوں امیدواروں کو اس تناسب سے ووٹ پڑے ہیں کہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تحریک لیبک پاکستان اور ملی مسلم لیگ کو پذیرائی ملی ہے۔ دونوں نئی سیاسی جماعتوں کو ملنے والی پذیرائی سے بعض لبرل حلقوں، میڈیا اور سول سوسائٹی میں بہت شور اٹھا کہ شدت پسند ہیں۔ انتہا پسند ہیں وغیرہ۔ پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں۔ انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ بعض نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ کی پشت پناہی ہے۔ زیادہ شور ملی مسلم لیگ کو لے کر اٹھایا جا رہا تھا۔ جس طرح آجکل قلم کار شرمین عبید چنائے کے ایک ٹویٹ پر ٹوٹ پڑے ہیں اور کالموں کی بھر مار کردی ہے۔ ایسے لگتا ہے لکھنے والے موضوعات کے بانجھ پن کا شکار ہیں۔ شرمین عبید چنائے پر تو جیسے ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ شرمین عبید چنائے نے وضاحت بھی دے دی ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ اس کا اپنے خاندان کے بارے میں کہنے کا مطلب کیا تھا۔ آسکرایوارڈ حاصل کرنے کے بعد تو ویسے ہی وہ مجرم ٹھہری ہے۔ جیسے ملالہ نوبل انعام ملنے کے بعد اب پاکستان کا رخ نہیں کر سکتی ہے۔ کل کو کچھ ملالہ کہ منہ سے بھی نکل سکتا ہے۔ پھر ملالہ کی خیر نہیں ہے۔ چگل کرچھوڑیں گے۔

ملی مسلم لیگ اور تحریک لیبک پاکستان کو لے کر بھی بہت کچھ لکھا گیا۔ کالموں کی منڈی کئی دن تک لگی رہی۔ حافظ سعید، مولانا خادم رضوی، اشرف جلالی اور ان کے رفقاءکا سیاست میں آنے فیصلہ اتنا ہی خوش آئند اور بروقت ہے۔ جتنا افواج پاکستان کا سیاست سے دور رہنا ہے۔ پاکستان جس صورت حال سے دوچار ہے۔ مذہبی جماعتوں کی سیاسی دھارے میں شمولیت اور انتخابی سیاست میں آنے سے عدم برداشت، شدت اور انتہا پسندی ختم ہوگی۔ بات چیت کوفروغ ملےگا۔ مذہبی اور سیاسی قوتوں کو ایک دوسرے کو سننے کا موقع میسر ہو گا۔ جس سے ایک توازن پیدا ہونے کی قوی امید کی جا سکتی ہے۔ باالفاظ دیگرمذہبی قوتوں نے جمہوری طرز سیاست قبول کیا ہے۔ یہ امر جمہوری قوتوں کی کامیابی ہے۔

اگر اسٹبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے۔ تب اسٹبلشمنٹ بامراد ٹھہری ہے۔ جس نے جمہوری جدوجہد کی درست راہ دکھائی ہے۔ یعنی اظہار تشکر کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کےلئے نیک شگون ہے۔ جو سیاسی حلقے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں انہیں تو ملی مسلم لیگ اور تحریک لیبک پاکستان کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنا چاہیے تھا۔ مخالفت کا مطلب تو یہ ہوا کہ بعض سیاسی حلقے محض سیاسی دکانداری چلانا چاہتے ہیں۔ انہیں ملک، ملکی استحکام، سیاسی و جمہوری روایات کے فروغ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

اگر آپ حقیقی سیاسی و جمہوری سوچ کے حامل ہے تو آپ کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے کہ ہر غیرجمہوری اور غیرسیاسی فرد سیاسی دھارے میں شامل ہوکر اپنے مقاصد کے حصول کےلئے جمہوری جدوجہد کا انتخاب کرے۔ سیاسی قوتیں اس امر پر بھی بات کریں کہ طالبان جیسی فورسز اور طبقات اپنی روش چھوڑ کر جمہوری انداز اپنائیں۔ تصور کیجئے۔ اگر طالبان اسلحہ پھینک کر سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہیں تو وطن پاک میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ دہشت گردی جیسے کینسر سے نجات مل سکتی ہے۔ ملک میں عدم استحکام کی فضا، بے یقینی، بدامنی ختم ہونے کے آثار پیدا ہوں گے۔ سیاست صبر، حوصلہ، برداشت،جدوجہد، معاملہ فہمی، مذاکرات اوراختلاف رائے کاحق استعمال کرنا سکھاتی ہے۔ یقینی طور مندرجہ بالا نئی سیاسی جماعتوں کے اضافے سے جمہوریت اور سیاسی عمل کو تقویت ملے گی اور دیگر غیرسیاسی و غیرجمہوری اور آمریت پسند حلقے سوچنے پر مجبور ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).