جنسی ہراسمنٹ کی جنگ اور معاشرتی آئینہ


شرمین عبید چنائے کی ٹویٹر پوسٹ سے ایک ایسی بحث کا آغاز ہوا جو بظاہر کچھ خاص نہیں تھی۔ محض ایک بہن کی اپنی چھوٹی بہن کے لیے محبت معلوم ہو رہی تھی۔ ویسے بھی میں ٹویٹر کی کوئی خاص صارف نہیں ہوں ، مگر اس دن اپنی ایک تحریر کے سلسلے میں پاکستان کے ایک معروف ہدایتکار سے ٹویٹر پر بات کر رہی تھی۔ تو ٹویٹر کو دن میں دو یا تین بار چیک کیا۔ لہذا شرمین عبید چنائے کی پوسٹ پر بھی نظر پڑ گئی۔

شرمین عبید چنائے کا نام میرے لیے نیا نہ تھا ۔ میں بحثیت ایک عورت اور بحیثیت پاکستانی شرمین عبید چنائے کی دل سے عزت کرتی ہوں اور کیوں نہ کی جائے ؟ معاشرے کو آئینہ دکھانا کوئی جرم نہیں اور نہ ہی بہترین کام کو سراہنے میں کوئی مزاحقہ ہے۔ مگر کچھ ہی دیر بعد ایک اور پوسٹ شیر کی گئی جس میں شرمین عبید چنائے کی بہن کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے والے ڈاکٹر کو ملازمت سی برخاست کرنے کی خبر دی گئی ۔ یہ بات مجھے تھوڑی مضحکہ خیز لگی۔ کیا یہ بھی جنسی ہراسمنٹ ہو سکتی ہے؟ مجھے نہیں پتا تھا۔

مگر ایک سوچ ضرور ذہن میں آئی کے کیا واقعی فیس بک پر کسی کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا جنسی ہراسمنٹ ہے؟
اور اگر یہ واقعی جنسی ہراسمنٹ ہے تو میں نے آج تک اس ہراسمنٹ کے خلاف کبھی ری ایکٹ کیوں نہیں کیا؟ میرے ذھن میں کبھی یہ خیال کیوں نہیں آیا کے مجھے فیس بک کے ذریعے لوگ تنگ کر رہے ہیں اور میں اسے جنسی ہراسمنٹ سمجھ سکتی ہوں۔

ابھی یہ جنگ جاری تھی کہ میں نے نورالہدیٰ شاہ کا آرٹیکل پڑھا جس میں انہوں نے فیس بک کو ایک چو را ہے سے تشبیہ دی جو مجھے بہت مناسب لگی۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے ڈرامے سمی کا احوال بتایا کے کس طرح جان ہاپکنز یونیورسٹی کے لیے لکھے گئے ایک پروجیکٹ ڈارمے پر جب پاکستان میں مومنہ درید نے ڈرامائی تشکیل کی تو اسی سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ کیوں کے جاٹ برادری کے لوگوں کو یہ پسند نہ آیا کے ان کی برادری کے بارے میں کوئی سوال اٹھائے۔ لہذا نورالہدیٰ شاہ کو اپنے ڈرامے میں جاٹ برادری کے استعمال ہونے کی وضاحت دینا پڑی اور یوں یہ معاملہ جلد سلجھ گیا۔ شرمین کے معاملے میں بات ذرا مختلف تھی کہ اس وقت یہ خبر چل رہی تھی کہ ایک ڈاکٹر اپنی نوکری سے برخاست کیا جا چکا تھا جس پر بہت سے لوگ ناراض تھے۔

نورالہدیٰ شاہ کا نام یاد آتے ہی مجھے پی ٹی وی کے کچھ کلاسک ڈرامے یاد آنے لگے جن میں نہایت مقبول ڈرامہ ماروی کسے یاد نہ ہوگا۔ ماروی ڈرامے میں مشہور و معروف لوک داستان عمر ماروی کی ڈرامائی تشکیل نورالہدیٰ شاہ نے کی تھی جو اپنی مثال آپ ہے۔ اس ڈرامے میں وڈیرہ کلچر اور نوجوان نسل میں آتی تبدیلیوں کو پرانی لوک داستان سے جوڑا گیا تھا اور ایک تہذیب کی عکاسی نہایت لطیف پیرائے میں کی گئی تھی ۔ یہ ایک ڈرامہ تھا تو اس میں ایک ہیروئن، ہیرو، ولن اور آخر میں ہیپی اینڈنگ دکھائی گئی جو ایک ڈرامے کی ضرورت تھی۔ اسے بہت پسند کیا گیا اور ایک کامیاب ڈرامہ پی ٹی وی کی تاریخ میں رقم ہوا۔ یہ بھی ایک آئینہ تھا مگر سوشل میڈیا کے دور سے پہلے۔

اب اگر بات شرمین عبید چنائے کی ڈاکومنٹری کی ہو جس پر انھیں آسکر ملا۔ اس فلم میں جنوبی پنجاب کی مختلف عورتوں کی سچی کہانیوں کو اور تیزاب کے حملوں کا شکار ہونے والی متاثرہ لڑکیوں کو فلمایا گیا تھا۔ جس میں نہ تو کوئی ہیروئن تھی نہ ہیرو نہ ہی کوئی سکرپٹ تھا اور نہ ہی کوئی ہیپی اینڈنگ ۔ اس فلم نے عالمی سطح پر تو شرمین عبید چنائے کی خوب پذیرائی کروائی مگر پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کو آئینہ پسند نہ آیا اور شرمین عبید چنائے کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کے یہ آج کی کہانی تھی، سچی تھی، حقیقی تھی اور اس کے کی کردار زندہ تھے۔ وہ کسی لوک داستان کا حصہ نہیں تھے۔ وہ جیتی جاگتی عورتیں تھیں۔ جو تیزاب سے جھلسنے کے بعد بھی اپنے حملہ آور شوہروں کے ساتھ سو رہی تھیں اور ان کے بچے پیدا کر رہی تھیں۔ بس ایک لمحے کو اس کرب کو محسوس کیجئے۔ الفاظ کی ضرورت نہیں، کیونکہ اِس تکلیف کے لیے جنسی ہراسمنٹ کا لفظ بہت چھوٹا لگتا ہے۔

خیر اب واپس ہراسمنٹ پر آتے ہیں۔ ”فیس بک جنسی ہراسمنٹ“ کی نئی تعریف مجھے زیادہ سمجھ تو نہیں آئی تھی مگر اس ڈاکٹر سے ہمدردی ضرور تھی جو اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ فیس بک پر کسی کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا کوئی جرم نہیں ہے، نہ ہی اس کی سزا نوکری سے برخاست ہونے کی شکل میں ملنی چاہئیے، میں اسے متفق ہوں۔ مگر اسی طرح اگر ہم فیس بک کو ایک معاشرتی چوراہے سے گمان کریں جس پر لوگ جگہ جگہ کھڑے ہیں اور آتی جاتی عورتوں کو آواز لگا کر کہ رہے ہیں: سنو مجھ سے دوستی کرو گی؟ یہ آواز صرف وہی عورت سن رہی ہے جِیسے بلایا جا رہا ہے اس لیے مجھ سمیت بہت سی عورتوں کو اس پر اعتراض نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ کوئی نقصان دہ چیز نہیں۔ آپ کا دل کرے سنیں دل نہ کرے نہ سنیں۔ آپ کی مرضی ہے۔ شاید اسی لیے آج تک یہ مجھے ہراسمنٹ نہیں لگی۔ مگر ہر انسان ایک جیسا نہیں۔ جو چیز میرے لیے مناسب ہو ضروری نہیں وہ آپ کے لیے بھی مناسب ہو؟ سوشل میڈیا نے دوست کی تعریف تھوڑی بدل دی ہے ۔ اب لوگ صرف ایک ملاقات کو دوستی سمجھ لیتے ہیں اور کبھی کبھار صرف نام جاننا بھی دوستی کی اجازت بن جاتا ہے۔ یہاں کچھ غلط یا صحیح نہیں ہے۔ یہ صرف ایک انسان کی اپنے لیے بنائی گئی سرحد ہے یا اس کی اپنی دوستی کی تعریف ہے۔ ہمیں بحثیت انسان دوسرے انسان کی سرحد کا احترم کرنا چاہیے۔

کچھ بلاگز اور سوشل میڈیا کمنٹس میں مجھے ایک لفظ اور بھی سننے کو ملا جو ذیادہ تر ان لوگوں نے استعمال کیا جو ڈاکٹر کو سپورٹ کر رہے تھے اور شرمین عبید چنائے کے اس ایکٹ کی خلاف تو تھے مگر زیادہ شدت پسند نہ تھے، انہوں نے موقف اختیار کیا کہ یہ ہراسمنٹ نہیں بلکہ ورک ایتھکس کی خلاف ورزی ہے جو کافی مناسب تعریف تھی۔ بعدازاں شرمین عبید چنائے نے بھی اپنی حالیہ ٹویٹ میں اسے ورک ایتھکس کی خلاف ورزی میں شامل کیا۔ اب اگر سوال ورک ایتھکس کا آتا ہے تو ان ورک ایتھکس کا اطلاق تو اس عورت پر بھی ہوتا تھا جو یہ الزام لگا رہی ہے کہ شرمین عبید چنائے نے اپنی ڈاکومنٹری میں استعمال کیا اور اسے معقول رقم دینے کا وعدہ کر کے بھول گئیں۔ اس خاتون پر کیا شرمین عبید چنائے کے ورک ایتھکس لاگو نہیں ہوتے؟ یہاں آئینہ کس نے دیکھنا ہے؟

سوال یہ ہے کے ہم سب نے اپنے اپنے آئینے اٹھا رکھے ہیں۔ جن میں ہم صرف اپنی مرضی کا چہرہ دکھانا چاہتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں نہ تو کسی دوسرے کا آئینہ پسند اتا ہے، نہ ہی ہم اپنے آئینے میں کسی اور کو دیکھنے دیتے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا کے صارف تو بن گے ہیں مگر ہمیں نہ تو دوسروں کی سرحدوں کا احترم کرنا آتا ہے، نہ ہی ہم کسی کی غلطی کو معاف کرنا جانتے ہیں۔ قصور نہ تو شرمین عبید چنائے کا ہے، نہ اس کی بہن کا، نہ ڈاکٹر کا اور نہ ہی اس مجمع کا جو سوشل میڈیا کے چوراہے پر لگا ہوا ہے۔ قصور دراصل اس سوچ کا ہے جو نہ تو معاشرے میں کسی دوسرے کو انسان سمجھتی ہے، نہ ہی اس کی عزت کرتی ہے۔ ہم انسان ہی سوشل میڈیا بنا رہے ہیں اور ہم ہی معاشرہ۔ ہم انسان ہی مرد ہیں اور ہم انسان ہی عورتیں ہیں۔ کیا ہم نے کبھی اس عورت اور مرد کی لباس سے باہر آکر کسی شخص کی عزت صرف بحثیت انسان کی ہے؟ کبھی انسان کا آئینہ اٹھایا ہے؟

آئیے ایک بار انسانیت کا آئینہ اٹھا لیں۔ پھر نہ تو کبھی ہراسمنٹ کی ضرورت رہے گی نہ ہی ہمیں ہراسمنٹ کو سمجھا نے کے لیے الفاظ درکار ہوں گے۔ نہ ہی۔ معاشرے میں مرد اور عورت کی جنگ لگے گی۔

ہادیہ یوسف


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).