جنسی ہراسانی اور سوشل میڈیا


یوں تو ہمارے ملک کو اسلامی ملک کہا جاتا ہے اور جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اسے اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے مگر کہنے سے کیا ہوتا ہے جب تک صحیح معنوں میں وہ ویسا ہو نہیں۔ ہم مسلمان ہیں مگر وہ بھی نام کے، وہ سب کچھ ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے جو غیر مسلموں میں ہے۔ خود کے لئے خاندان کے لئے اپنوں کے لئے ہمارے پیمانے الگ الگ ہیں جبکہ اور لوگوں کے لئے ہمارے پیمانے الگ ہوجاتے ہیں۔ اپنی بہن بیٹیوں کو سات پردوں میں چھپا کر رکھتے ہیں مگر دوسروں کی ماں بیٹیوں کو پردوں میں بھی نہیں چھوڑتے۔ اس سوشل میڈیا کے دور میں دس دس فیک اکاؤنٹ رکھنے والے مرد حضرات اپنے گھر کی خواتین کو اس سے دور رکھنے پر مصرہوں گے۔ کیونکہ ان کے بقول لڑکیاں کند ذہن ہوتی ہیں۔ جلد بہکاوے میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ وہ خود جال کا شکاری ہوتا ہے۔ ہر جگہ جال پھیلانا جانتا ہے۔ کیا پتہ جس سے چیٹ ہورہی ہو وہ اس کی اپنی بہن یا بیٹی ہو۔

موجودہ دور میں ٹھرک پن ایک بیماری کی شکل اختیار کرگئی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ اور یہ بیماری موجودہ دور میں بہت عام ہوگئی ہے۔ صرف تعلیمی اداروں میں نہیں بلکہ ہر ادارے میں جہاں خواتین کام کر رہی ہیں۔ وہاں یہ ٹھرک پن جو بعد میں جنسی ہراسانی پر متنج ہوجاتی ہے۔ جس کا اسلام میں تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام جو سکھاتا ہے کہ نظریں نیچے رکھا کرو۔ مگر نظریں کون نیچے رکھتا ہے۔ جب تک گلی کے نکڑ تک نہ پہنچا دیا جائے آرام کسے آتا ہے۔ سوشل میڈیا نے تو ٹھرک پن اور بھی زیادہ کر دیا ہے۔ ہر کوئی خواتین کی آئی ڈیز کے پیچھے ہی ہوتا ہے۔ کہ بس بچی پھنس جائے تو کمال ہو۔ یہ پتہ نہیں کہ اگر اس کی بہن کو کسی نے پھانس لیا تو کمال نہیں دھمال ہوجائے گا۔ سوشل میٍڈیا پر ٹھرک پن اس لئے زیادہ ہے کہ جس کے ساتھ آپ دوست ہیں اگر اس نے پرایسویسی اسیٹنگ نہیں کی ہے تو آپ کے سارے دوست اس کے سامنے عیاں ہیں۔ جس میں فیملی کے بھی سارے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اور اپ ہی کے فیملی کے لوگوں کو دوستی کے ریکوئسٹ آتے رہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

میرے ساتھ بہت سے سٹوڈنٹس ایڈ ہوگئے۔ تو کچھ نے شکایت کی کہ اپ کے میوچل فرینڈز ہمیں ریکوئسٹ سینڈ کرتے ہیں۔ جواب دیا اگنور کریں۔ یہی آسان حل ہے۔ جب ہائے کا جواب ہائے ہوگا تو بات آگے بڑھے گی ورنہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بات آگے بڑھے۔ اور جواب پاکر وہ خاموشی سے اپنی راہ لے لیتے۔ یہاں سوشل میڈیا پر بات وہی رشتے والی ہے جب کسی کی بات چلتی ہے تو جب تک رشتہ طے نہیں ہوتا خاندان والے اجنبی رہتے ہیں۔ مگر جب بات پکی ہوجاتی ہے تو تعلقات بننے شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کی درخواستیں ہیں۔ کسی کو ویلکم کہوگے تو آپ کو بھی ویلکم کیاجائے گا۔

اب فرینٍڈ ریکوئسٹ ہراسمنٹ میں آتی ہے یا نہیں اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مگر شرمین عبید نے ایک نئی بحث کا اغاز کردیا ہے۔ خواتین کو ریکوئسٹ آتی ہیں مگر مردوں کوبھی اُسی تواتر سے ریکوئسٹس آتی ہیں۔ جس کو مرد حضرات عبدالغفور سمجھ کر اگنور کرتے ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹیوں میں جو جنسی ہراسانی کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ اس میں سو فی صد نہیں تو نوے فیصد صداقت ہے۔ صرف سندھ یا کراچی میں یہ حال نہیں ملک کی تمام یونیورسٹیوں کا یہ حال ہے۔ اب ہر لڑکی میں اتنی طاقت نہیں ہوتی۔ کہ وہ اس کو سامنے لے کر آئے کیونکہ اس میں بدنامی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ اور مرد کا کچھ نہیں جاتا کیونکہ وہ تو مرد ہوتا ہے معاشرہ اُسی کا ہے۔ خاتون پر دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ اس لئے زیادہ تر لڑکیاں چپ سادھ لیتی ہیں

آج کل تو سوشل میڈیا پر بہت کچھ سامنے آرہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کی وارڈن کانوٹیفیکیشن سوشل میڈیا کی زینت بنا کہ لڑکیاں ایک بیڈ پر دو دو نہ سوئیں جس سے لیسبیانیزم کی بات سامنے آئی پھر مجھے ایک دوست نے بتایا کہ سوشل میڈیا میں گیز بہت زیادہ ہوگئے ہیں کیونکہ مجھے بہت سی ریکوئسٹس نوجوان لڑکوں کی آتی ہیں جنہوں نے صرف کالج میں داخلہ لیا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ چیٹنگ کے بعد ملنے اور رقم کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ جب پروفائل چیک کی جاتی ہے تو عجیب عجیب تصویریں اپلوڈ کی ہوتی ہیں جس سے لڑکی ہونے کا گماں ہوتا ہے اور ان کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ ان سے دوستی کی جائے۔ اب بچوں کے ساتھ دوستی؟ مجھے اس پر ہنسی آرہی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد جب خود مجھے اس قسم کے ریکوئسٹ آنے شروع ہوئے تو بلاک آپشن کا استعمال شروع کیا۔ اور اب تک وہی عمل جاری ہے۔ جن کو جانتاہوں انہیں دروازہ کھول دیتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا وہ اپنی راہ لے لیتے ہیں۔ بہت لوگ اس پر عمل کرتے ہیں اور مغرور کی اصطلاح پاتے ہیں۔

عمران اور عائشہ گلالئی کے کیس کے بعد تو لوگوں نے ان باکس میں جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ آج ایک پرانی کولیگ کا اسٹیسٹس دیکھا جس۔ میں اُس نے لکھا تھا کہ مجھے اوبر کے ڈرائیور نے گاڑی سے میرے اترتے ہی فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دیا۔ تو کیا یہ جنسی ہراسانی میں آتا ہے اسی طرح ایک ٹیچر نے اسٹیٹس دیا ہے کہ مجھے ایک فی میل سٹوڈنٹ کی ریکوئسٹ آئی ہے تو کیا یہ جنسی ہراسانی ہے کہ نہیں۔ مجھے امید ہے کہ اب بہت سے لوگ فرینڈ ریکوئسٹ کسی انجانے شخص کو بھیجنے میں ہزار دفعہ سوچیں گے۔ کیونکہ وہ سوچیں گے کہ اس کی بہن کہیں شرمین عبید جیسی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).