کرکٹر اتنے وہمی کیوں ہوتے ہیں؟


چند دن پہلے سری لنکن ٹیسٹ ٹیم کے کپتان چندی مل نے یہ انکشاف کر سب کو حیران کر دیا کہ پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش دراصل ایک عاملہ کی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔

چندی مل کا کہنا تھا کہ ‘آپ کے پاس ٹیلنٹ ہو سکتا ہے، تاہم آپ دعا کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔’

سوشل میڈیا پر سری لنکن کپتان کی توہم پرستی کا خوب مذاق اڑایا گیا، لیکن بےچارے چندی مل اس ضمن میں ہرگز اکیلے نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں متعدد کرکٹر ایسے ہیں جو کسی نہ کسی قسم کی توہم پرستی میں مبتلا ہیں۔

مثال کے طور پر جب 2015 کے ورلڈ کپ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی وردیوں کے نمبر الاٹ ہونے لگے تو عمر اکمل نے کوشش کر کے اپنا نمبر 96 سے تبدیل کر کے 3 کروا دیا۔ میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق عمر اکمل نے کہا تھا کہ ان کے ‘پیر’ نے انھیں یہ نمبر استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

البتہ پیر کا یہ مشورہ عمر اکمل کے کسی کام نہیں آیا اور وہ انڈیا کے خلاف میچ میں صفر پر آؤٹ ہو گئے۔

انڈیا کے شہرۂ آفاق بلےباز سچن تیندولکر کے کئی توہمات مشہور ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اننگز شروع کرنے سے قبل پیڈز باندھتے وقت ہمیشہ پہلے بایاں پیڈ پہنتے تھے۔

ایسا کیوں ہے؟ کرکٹر دوسرے کھیلوں کے کھلاڑیوں کے مقابلے پر اتنے زیادہ توہم پرست کیوں ہوتے ہیں؟

اس کی ایک وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اکثر دوسرے کھیلوں کے مقابلے پر کرکٹ کہیں زیادہ اتفاقی کھیل ہے (کہاوت: ‘کرکٹ بائی چانس’)، اور اس کے دوران درجنوں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں حادثاتی طور پر رونما ہوتی ہیں جن کا آگے چل کر میچ کے نتیجے پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

تصور کیجیے کہ ایک اوپنر کی اننگز کے دوران اس کے دو کیچ ڈراپ ہوئے ہیں، گیند دس مرتبہ بلے سے بال برابر فاصلے سے گزری ہے، اور وہ تھرو وکٹوں پر نہ لگنے سے رن آؤٹ ہوتے بال بال بچا ہے۔ اس نے سینچری بنا لی۔

دوسری طرف اس کا ساتھی اوپنر زیادہ بہتر طریقے سے کھیل رہا تھا لیکن تیسرے اوور ہی میں اسے ایک ‘ان پلے ایبل’ گیند کا سامنا کرنا پڑ گیا اور وہ پانچ رنز پر آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ گیا۔

اسی طرح بولنگ میں بھی قسمت بہت کام دکھاتی ہے۔ بعض اوقات انتہائی زبردست گیند پر وکٹ نہیں ملتی، جب کہ جو گیند چھکے کی حقدار تھی، اس پر بلےباز (بدقسمتی سے) غلط شاٹ کھیل کر بولر کو وکٹ تحفے میں تھما دیتا ہے۔

کرکٹ میں کئی ایسی چیزیں ہیں جو کھلاڑیوں کے اختیار سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ مثلاً بعض قسم کی وکٹوں پر صرف ٹاس جیتنا آدھا میچ جیتنے کے برابر ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ کبھی موسم یا اوس بیچ میں ٹانگ اڑا میچ کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اکثر دوسرے کھیلوں کے مقابلے پر کرکٹ کہیں زیادہ اعداد و شمار اور ریکارڈز کا کھیل ہے، اس میں درجنوں قسم کے ریکارڈز سے واسطہ پڑتا ہے۔ انفرادی سکور، مجموعی سکور، چوکے چھکے، سینچریاں، نصف سینچریاں، ڈبل سینچریاں، اوسط، سٹرائیک ریٹ، کریز پر بِتایا گیا وقت، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ بولنگ، فیلڈنگ، کپتانی کے ریکارڈ الگ ہیں۔

ظاہر ہے، جہاں اتنے زیادہ مختلف پہلو ہوں گے، وہاں قسمت کا عمل دخل اتنا ہی زیادہ ہو جاتا ہے، یا ہوتا لگتا ہے۔

صرف یہی نہیں، بلکہ کرکٹ کا دورانیہ بھی عام کھیلوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، جہاں اس قسمت کو کھُل کھیلنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرکٹ کے دوران جہاں اتفاقات کا زیادہ موقع ملتا ہے، وہیں کھلاڑیوں کو توہمات کے زیادہ مواقع فراہم ہو جاتے ہیں۔

ذیل میں ہم چند کرکٹ کھلاڑیوں کی دلچسپ توہم پرستانہ عادات کا ذکر کرتے ہیں:

1 آسٹریلیا کے سابق کپتان سٹیو وا ہمیشہ اپنی جیب میں سرخ رنگ کا رومال رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بار جب یہ رومال ان کی جیب میں تھا تو انھوں نے سینچری سکور کی تھی۔ ان کے کریئر کے آخر آخر تک یہ رومال چیتھڑا بن گیا تھا لیکن سٹیو وا نے اسے ترک کرنا گوارا نہیں کیا۔

2 بھارتی کپتان وراٹ کوہلی بہت عرصے تک ایک ہی جوڑا دستانے پہنتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کی کامیابی میں ان دستانوں کا بڑا ہاتھ ہے!

3 جنوبی افریقہ کے کرکٹر نیل میکنزی جب بیٹنگ کے لیے میدان میں اترتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ کریز کی لکیر پر ان کا پاؤں نہ پڑنے پائے۔

4 یوو راج سنگھ ہمیشہ 12 نمبر کی قمیص پہنتے ہیں۔ وجہ؟ وہ 12 دسمبر (12/12) کو پیدا ہوئے تھے!

5 مہیلا جےوردھنا بیٹنگ کرتے وقت بار بار اپنا بیٹ چوما کرتے تھے۔

6 کچھ ایسی ہی کشش جےوردھنا کے ہم وطن لستھ ملنگا کو گیند سے تھی اور وہ سٹارٹ لینے سے قبل گیند کو چوم کر بھاگنا شروع کرتے تھے۔

7 مہندر سنگھ دھونی 7 نمبر کی شرٹ پہنتے ہیں۔ وہ سات جولائی کو پیدا ہوئے تھے، اس لیے ان کا خیال ہے کہ یہ ان کا ‘لکی نمبر’ ہے۔ حتیٰ کہ دھونی نے اپنے برینڈ کی خوشبو متعارف کروائی تو اس کا نام بھی ‘7’ رکھا۔

8 محمد حفیظ 8 نمبر کی قمیص پہنتے ہیں۔ ان سے پہلے یہ نمبر انضمام الحق کی ملکیت تھا۔ حفیظ نے کوشش کر کے یہ نمبر اپنے نام کروایا تاکہ وہ بھی انضمام کی طرح بلےبازی کے میدان میں جھنڈے گاڑ سکیں۔

9 مشہور برطانوی امپائر ڈیوڈ شیپرڈ کی ایک عجیب عادت تھی۔ جب بھی ان کی امپائرنگ کے دوران کسی ٹیم کا سکور ‘نیلسن’ (یعنی 111، 222، 333، وغیرہ) پر پہنچتا تو وہ اپنا ایک پاؤں اوپر اٹھا دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح بلائیں ٹل جاتی ہیں۔

10 برازیلی فٹبال سٹار پیلے دس نمبر کی قمیص پہنتے تھے۔ بعد میں میراڈونا نے یہی نمبر اپنایا۔ یہی نمبر بوم بوم آفریدی کو بھی اس قدر پسند ہے کہ کھیلتے وقت وہ اسے اپنی کمر سے الگ نہیں ہونے دیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).