‘ہمارا ہی ٹکراؤ ہوتا ہے کسی کا ہمارے ساتھ ٹکراؤ کیوں نہیں ہوتا‘: نواز شریف


شہزاد ملک۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر جمعے کو پہلی بار اکٹھے احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔ نواز شریف اور مریم نواز ایک گاڑی میں جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر الگ گاڑی میں عدالت پہنچے۔

یہی صورت حال کمرۂ عدالت کے باہر ہی نہیں بلکہ کمرۂ عدالت کے اندر بھی نظر آئی۔
نواز شریف اور مریم نواز احتساب عدالت کے جج کی کرسی کے سامنے لگی ہوئی نشستوں پر جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو آخری قطار میں لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھایا گیا۔

نواز اور مریم کے ساتھ سینیٹر پرویز رشید بھی براجمان تھے جو کہ ملک کی سیاسی صورت حال پر بات چیت کر رہے تھے۔
عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ انھیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے تصدیق شدہ حکم نامے کی کاپی نہیں ملی جس میں عدالتِ عالیہ نے احتساب عدالت کے 19 اکتوبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی تصدیق شدہ کاپی آنے تک عدالت نے سابق وزیر اعظم، ان کی بیٹی اور داماد کے خلاف ریفرنس کی سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی۔
اس دوران نواز شریف اور مریم نواز کمرۂ عدالت میں ہی موجود رہے جبکہ دانیال عزیز، طارق فضل، محسن شاہنواز رانجھا اور مریم اورنگزیب اپنے ’قائد‘ کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ کوئی انھیں بادام اور سبز الائچی پیش کر رہا تھا جبکہ کوئی انھیں چیونگم آفر کرنے کے لیے اپنی سی سعی کر رہا تھا۔
سابق وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر بھی اسی کمرۂ عدالت میں موجود تھے لیکن کسی بھی وزیر کی جانب سے انھیں بادام یا الائچی پیش کرنا تو درکنار کسی رکنِ پالیمان نے ان کے ساتھ بیٹھنا گوارہ نہیں کیا۔

اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کمرۂ عدالت میں موجود صحافیوں کو نواز شریف کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع مل گیا۔ اگرچے کمرۂ عدالت میں بھی ان کا سکیورٹی سٹاف موجود تھا لیکن ان اہلکاروں نے میڈیا کے ارکان کو نہ تو پیچھے دھکیلا اور نہ ہی انھیں سابق وزیر اعظم سے سوالات پوچھنے سے روکا۔
ملک کے اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا ’ہمارا ہی ٹکراؤ ہوتا ہے کسی کا ہمارے ساتھ ٹکراؤ کیوں نہیں ہوتا‘۔ اس فقرے پر کمرۂ عدالت میں ایک قہقہ بلند ہوا۔

تین نومبر کے حوالے سے نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ انھیں ایسی عدلیہ نہیں چاہیے جو نظریہ ضرورت ایجاد کرے اور اگر ججوں اور جرنیلوں کا بھی احتساب ہو تو وہ کھلی عدالت میں ہو۔

کمرۂ عدالت میں حکمراں جماعت کی جانب سے یہ آواز بھی بلند ہوئی کہ پرویز مشرف جس نے تین نومبر سنہ 2007 کو عدلیہ پر شب خون مارا وہ اس وقت بیرونِ ملک ہے جبکہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک چلانے والا (نواز شریف) اس وقت عدلیہ کے سامنے ملزم کی حثیت سے پیش ہو رہا ہے۔
صحافیوں سے گفتگو کے دوران مریم نواز اپنے والد کے کان میں سوال کے متعلق کچھ کہتیں جس کے بعد نواز شریف سوال کا جواب دیتے۔ اس دوران نواز شریف نے جیب سے لکھی ہوئی تقریر نکالی اور اس میں سے بھی کچھ حصہ پڑھا۔

حاضری اور انگوٹھے کا نشان لگوانے کے لیے جب عدالتی رجسٹر نواز شریف کے سامنے رکھا گیا تو اس پر انھوں نے دستخط تو کردیے لیکن یہ کہہ کر انگھوٹے کا نشان لگانے سے انکار کر دیا کہ ’انگوٹھا بعد میں لگاؤں گا‘۔

چونکہ انگوٹھا لگانے سے ہاتھ کے گندہ ہونے کا ڈر تھا اس لیے کمرۂ عدالت میں موجود وفاقی وزرا ٹشو پیپرز ڈھونڈتے رہے اور آخر کار وہ ٹشو لے آئے جس کے بعد طارق فضل جو ایک مقدمے میں نواز شریف کے ضمانتی بھی ہیں، کہا ’سر عدالتی کارروائی کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے‘۔ جس کے بعد سابق وزیر اعظم نے عدالتی رجسٹر پر اپنے انگوٹھے کا نشان لگایا۔
کمرۂ عدالت سے نکلنے کے بعد امکان یہی تھا کہ نواز شریف نے جو تقریر لکھی ہے اس کو میڈیا کے سامنے پڑھیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ کمرۂ عدالت سے باہر میڈیا سے گفتگو کیے بغیر گاڑی میں بیٹھ کر پنجاب ہاؤس روانہ ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp