آزادی کا نا مکمل ایجنڈا اور سیاست کا مارگلہ


عزیزان محترم، میری نسل کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ زیادہ گزر گیا، بہت کم باقی ہے۔ جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق… استاد ابراہیم ذوق سے نصف صدی بعد ایک رنگلا، رمتا، بیراگی شاعر محمد داؤد خان ٹونک سے لاہور آیا تھا۔ اختر شیرانی کہلاتا تھا۔ ستمبر 1949 میں میو اسپتال کے بستر مرگ پر آخری غزل لکھی۔ دیر کیا ہے آنے والے موسمو، دن گزرتے جا رہے ہیں، ہم چلے… اور اس رنگ میں جو دن ہم نے یہاں گزارے، ان کا قصہ سرائیکی کے جدید شاعر رفعت عباس نے دو مصرعوں میں سمیٹ دیا؛

کیویں ساکوں یاد نہ رہسی تینڈے گھر دا رستہ

ڈو تے سارے جنگل آندن ترے تے سارے دریا

تمہارے گھر کا راستہ ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ کل تفصیل یہی ہے نا کہ اس میں دو جنگل پڑتے ہیں اور تین دریا پار کرنا ہوتے ہیں؟ یہ الجھن بہرحال موجود رہتی ہے کہ دریا پار کرنا زیادہ مشکل امتحان ہے یا جنگل عبور کرنا زیادہ کٹھن آزمائش ہے۔ یہ طے ہے کہ گھاس کا ہموار میدان ہماری ریکھاؤں میں نہیں لکھا تھا۔ ہمیں تو ہر قدم پر رک کے پوچھنا پڑا کہ ان دنوں جنگل سے گزر رہے ہیں یا دریا پار کر رہے ہیں۔ دریا کے پار اترتے ہیں تو ایک اور دریا کا سامنا ہوتا ہے۔ جنگل سے گزرتے ہیں تو دوپہر کی دھوپ میں بستی پر شام اتر آتی ہے۔ قبلہ گاہی عطا الحق قاسمی سے برس تہوار پر کبھی ملاقات ہو جائے تو پیار سے کربلائی کہہ کر پکارتے ہیں۔ جانتا ہوں کہ میری اشک فشانی کو ایک محترم لقب دے رکھا ہے۔ آغا بابر مرحوم کی خود نوشت ’خدوخال‘ میں ایک شعر کا حوالہ بار بار آیا۔ آنکھوں کو شوق گریہ ہمیشہ رہا عزیز… دریا کی ساری عمر روانی میں کٹ گئی۔ جاننا چاہئے کہ احسان فراموشی کی تاب نہیں، پرشور دریاؤں اور ہونکتے جنگلوں کا یہ سفر بزرگوں کی شفقت، اساتذہ کی رہنمائی اور دوستوں کے التفات سے خالی نہیں رہا۔ کڑے کوس کی مسافتوں میں ہم چھاؤں چھاؤں چلتے رہے۔ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آنے والوں کے راستے میں چھتنار پیڑوں کا سایہ بلا توقف میسر رہے۔ سو کچھ اشارے زاد سفر کے طور پر بانٹ لئے جائیں۔

پاکستان ہمارا ملک ہے۔ ہماری ریاست کا موقف ہے کہ ہماری جغرافیائی سرحدیں ہمارے تاریخی موقف سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ زیادہ واضح لفظوں میں یہ کہ کشمیر پر ہمارا دعویٰ موجود ہے۔ ریاست کا موقف عارضی نہیں ہوتا۔ شاذ ہی کوئی ریاست اپنے دعوے سے مراجعت کرتی ہے۔ پاکستان کو بھی ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ دنیا میں درجنوں ممالک اپنی سرحدوں سے مطمئن نہیں۔ ہمارا ہمسایہ چین تائیوان پر دعویٰ رکھتا ہے۔ چین کے بھارت کے ساتھ جنوب مشرق میں سرحدوں کے تعین پر تنازعات موجود ہیں لیکن چین کی معیشت چھ اعشاریہ سات فیصد سالانہ کی شرح سے پھیل رہی ہے۔ وجہ صاف ہے، چین نے اپنی معیشت کو سرحدی دعوئوں کا اسیر نہیں کیا۔ ہمیں بھی اپنا سیاسی، قانونی اور اخلاقی موقف برقرار رکھتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ جغرافیہ حتمی تجزئیے میں شہریوں کی معاشی ترقی اور آسودگی کے تابع ہے۔ کچھ توجہ معیشت پر دینی چاہئے۔ معیشت کے اشارے پچھلے تین چار برس میں بہتر ہوئے ہیں۔ قابل اطمینان ہرگز نہیں، اگر ہم گھر میں ہمہ وقت دھینگا مشتی کی علت میں کچھ وقفہ دیں تو معیشت کی گاڑی بہتر طور پر آگے بڑھ سکتی ہے۔

پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں کہ ہمارے شہری داخلی تصادم کے محاذ پر محصور ہو جائیں نیز یہ کہ دنیا ہمیں مسترد کر کے ایک کونے میں ڈال دے۔ ہمارے لئے مناسب حکمت عملی یہ ہے کہ اپنی قومی شناخت اور ساکھ کو برقرار رکھتے ہوئے اعتماد کے ساتھ بیان کریں کہ ہمارے پاس معیشت، علم، تہذیب اور تمدن میں حصہ ڈالنے کے لئے کیا کیا اثاثے موجود ہیں۔ ہم انسانوں کے وسیع سمندر میں اپنے چشموں اور دریاؤں کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی شامل کریں گے تو کون ہے جو ہمیں نظر انداز کر سکے۔ اس میں ایک رکاوٹ یہ ہے کہ اگر ہمارے ملک کا شہری بے یقینی، بے وقعتی، بے بسی اور محرومی کا نشان ہو گا تو ہم دنیا میں سر اٹھا کر بات نہیں کر سکتے۔ اسلام آباد کے صحافی احمد نورانی پر حملہ کیا جائے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ حملہ کرنے والے مجرم ہیں اور ریاست کے وسائل اسے انصاف دینے پر کمر بستہ ہیں۔ سندھ کے سیاسی کارکن کو اغوا کر لیا جائے تو پریس کلب کے باہر اس کی بازیابی کے لئے احتجاج کرنے والے نوعمر بچے کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ اپنے باپ کے لئے بھیک نہیں، انصاف مانگنے آیا ہے۔ ہمارے ملک کے صدر کو ناجائز سیاسی دباؤ سے بچنے کے لئے دبئی جا کر پناہ لینا پڑے ، علاج کی غرض سے لندن میں بیٹھا ہمارے ملک کا وزیر اعظم اپنی حکومت ٹوٹنے کی افواہیں سنتا رہے تو قوم کی ساکھ اور مفاد داؤ پر لگ جائیں گے۔ ہمارا سفارت کار ریاست کا مقدمہ لڑ رہا ہو تو اسے یہ خوف نہیں ہونا چاہئے کہ اس کی جیب کاٹ لی جائے گی۔ اگر ہم ذاتی فائدے کے لئے ملک کے ہر شہری اور ہر ادارے پر انگلی اٹھائیں گے، بغیر سوچے سمجھے کرپشن کے الزامات اچھالیں گے تو قوم کا امکان مخدوش ہو جائے گا۔ ہمیں تصادم کا پنگ پانگ نہیں کھیلنا چاہئے۔ مفاہمت کے فٹ بال کو ہمہ وقت اپنی خود ساختہ پارسائی کی ٹھوکر پر نہیں رکھنا چاہئے۔ کیسا تصادم اور کیسی مفاہمت؟ ہمارا اپنا ملک ہے۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں، ہمارے اپنے ملک کے ادارے ہیں، کوئی بیرونی حملہ آور یہاں نہیں ہیں جنہیں اٹھا کر سمندر میں پھینکنا ہے۔ مفاہمت اور تصادم کا ایک ہی مطلب ہے۔ مفاہمت ہے تو آئین کی بالادستی، جمہور کی حکمرانی اور ملک کی ترقی پر۔ ان اصولوں کی بے حرمتی پر مزاحمت تصادم نہیں ہے۔ مارگلہ کی پہاڑی ہماری ہے۔ یہ تصادم کا اعلان نہیں۔ پاکستان، اس کی وفاقی اکائیوں، اس کے اکیس کروڑ عوام اور اس کے 280 شقوں پر پھیلے ہوئے دستور سے وابستگی کا اعلان ہے۔

ہمیں اپنے ملک کی تاریخ سے دریا کے امتحان اور جنگل کی آزمائش کو ختم کرنا چاہئے۔ پرچموں سے خون کے دھبے مٹانے چاہئیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم دینا ہے۔ زبان اور عقیدے کی نسبت سے اقلیتی گروہوں کو مساوی حقوق اور رتبہ دینا ہے۔ پاکستان کی عورتوں کو سیاست، معیشت اور کتاب قانون میں برابر کا مقام اور موقع دینا ہے۔ ہمیں صحت، روزگار اور شہری سہولتوں کی فراہمی کے لئے کام کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مفادات کی بساط کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہے۔ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ مفاد اور مواقع کی نئی ترتیب کے دو راستے ہیں۔ آئین کے دائرے میں چلیں تو مفاہمت سے یہ منزل مل سکتی ہے جیسے ایاز صادق کے چیمبر میں بیٹھ کر دو سو بہتر نشستوں کو چار صوبوں میں بانٹ دیا۔ قومی اسمبلی کی نو نشستوں کا تبادلہ ہو گیا۔ سو دوسرا راستہ آمریت کا ہے، آمریت تو کالا باغ ڈیم کو متنازع کر دیتی ہے۔ آئین کا احترام اور جمہور کی بالادستی ہماری آزادی کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ تصادم، بے یقینی اور بحران چوٹی زیریں اور مارگلہ کی سیاست ہے۔ ہماری نسل کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ عرض یہی ہے کہ قوم کی آزادی کا امکان بروئے کار لانے کے لئے دستور کی گلی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).