شاہ عبدالطیف بھٹائی کا آخر سندھ سے تعلق کیا ہے ؟


اگر ہم موئن جو دڑو سے ہی سندھ کی تاریخ کا کھاتہ کھولیں تو بھی سندھ کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں سندھیوں پر سب سے زیادہ اثرجس شخص کا رہا ہے وہ شاہ عبدالطیف بھٹائی ہیں ۔

سندھی پیپلز پارٹی کا ہو یا مسلم لیگ کا۔ جیئے سندھ کا ہو یا جماعت اسلامی کا، پیر صاحب پگارہ کا مرید ہو یا مخدوم امین فہیم کا، پروفیسر ہو یا کوئی ان پڑھ گنوار، گائوں کا ہو یا شہر کا، ڈاکٹر ہو یا بیوروکریٹ، شاعر ہو یا ادیب، عورت ہو یا مرد، جوان ہو یا بوڑھا، ہندو ہو یا مسلمان، سکھر میں رہنے والا ہو یا نیویارک میں ، ایک دوسرے کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق رکھنے والے بھی سندھیت کے حوالے سے ـ بھٹائی ۔ کو اپنا رھبر مانتے ہیں۔

لطیف کی شاعری کا کمال ہی تو ہے کہ اگر کوئی فوت ہو جاتا ہے تو لطیف پڑھ کر دکھ بانٹا جاتا ہے، شادی ہوتی ہے تو لطیف پڑھا اور گایا جاتا ہے، سیاسی جلسہ ہو، کسی کی تقریر ہو یا کوئی بھی تقریب ہو شروعات لطیف سے ہوتی ہے، اختتام بھی لطیف کے شعر سے ہوتا ہے۔ کوئی لو لیٹر لکھنا ہو، شادی کارڈ چھپوانا ہو، کوئی بینر بنوانا ہو، کوئی پوسٹر ہو یا کوئی اسٹیج پروگرام شروع کرنا ہو ، سندھ میں ہر طرف جیئے لطیف کی صدا ہی ہوتی ہے۔

ون یونٹ اور مختلف آمریتی ادوار میں جب صوبوں کی اصل پہچان مٹا دی گئی تھی تو شاہ لطیف کو بھی ایک سنت اور پیر مشہور کرنے کی مہم زور پکڑ رہی تھی۔ ایسے میں سائیں جی ایم سید نے کتاب ـ پیغامِ لطیف ـ لکھ ڈالی۔ پھر کیا تھا ، لطیف درگاہوں ، دعائون اور منتوں سے واپس اپنے آفاقی انقلابی پیغام کی طرف لوٹ آیا۔ شاہ لطیف کا یہ آفاقی پیغام

سائين سدائين، ڪرين مٿي سنڌ سُڪار؛

دوست مٺا دلدار، عالم سڀ آباد ڪرين.

ہے جس کا مطلب ہے، ای میرے مالک سندھ کو ھمیشہ سر سبز اور خوشحال رکھنا اور ساتھ ہی پوری دنیا کو آباد رکھنا۔

سائیں جی ایم سید نے سندھی قوم پرستی کو مضبوط کرنے کے لیئے شاہ لطیف کے پیغام کا خوب استعمال کیا۔ یہاں تک کہ اپنی بیٹی (مرحومہ) ڈاکٹر درِشہوار سید کو شاہ لطیف پر ڈاکٹریٹ کرنے کے لیئے برطانیہ کی ایڈنبرو یونیورسٹی بھیجا ، جہاں سے انہوں نے ـ شاھ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری پر ویدانیت کا اثر۔ کے عنوان پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پوری عمر شاہ لطیف پر کام کرنے میں گذار دی یہاں تک کہ ان کی ریٹائرمنٹ ہی چیئروومین شاہ لطیف چیئر کراچی یونیورسٹی کے طور پر ہوئی۔

شاھ عبداللطیف بھٹائی کی ولادت 1689ء میں موجودہ ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میں ہوئی۔ آج ان کا 274 واں عرس ہے۔ سندھ میں سرکاری سطح پر عام تعطیل ہے اور بھٹ شاہ میں ایسا تین روزہ میلا سجا ہے کہ سندھ کے ہر کونے سے ہالا جانے والا رستا جیئے لطیف کے نعروں سے گونجتا ہوا بھٹ شاہ کی طرف رواں دواں ہے۔

شاھ عبداللطیف بھٹائی کے شاعری مجموعے کو ـ شاہ جو رسالو ـ کہا جاتا ہے۔ اس کے تیس باب ہیں جن کو سُر کہا جاتا ہے۔ اس طرح شاہ کے تیس سُر کلیان، سُر یمن کلیان، سُر کھنبھات ، سُرسریراگ، سُر سامونڈی، سُر سُھنی، سُر سسئی آبری، سُر معذوری، سُر دیسی، سُر کوھیاری، سر حسینی، سُر لِیلا چنیسر، سُر مومل رانو، سُر مارئی، سُر کامود، سُر گھاتوں، سُر سورٹھ، سُر کیڈارو، سُر سارنگ، سُر آسا، سپر رِپَ ، سُرکھاھوڑی، سُر بروو سندھی، سُر رامکلی، سُر کاپائتی، سُر پورب، سُر کارایل، سُر پربھاتی، سر ڈھر اور سُر بلاول ہیں۔

شاہ لطیف نے اپنا پورا پیغام عورت کے روپ میں کہا ہے۔ شاہ نے عورت کو ہیرو کرکے پیش کیا ہے۔ مارئی، سسئی، مومل، سومل، سُھنی، لیلاں، سورٹھ ، سب لطیف کی سورمیاں ہیں۔

مجھے میرے محبوب نے کنویں میں پھینک دیا ہے،

اوپر سے کہہ رہا ہے، بھیگنا بھی نھیں ۔۔۔۔ ( ترجمہ)

یا

کیا ناز سے میرے محبوب نے پائوں رکھا ہے،

کہ زمیں بھی بسم اللہ کہہ کر پیر چوم رہی ہے۔ ( ترجمہ)

بازار میں سندھ کے موجودہ صدی کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایاز اور احمد سلیم کا کیا ہوا شاہ جو رسالو کا اردو ترجمہ موجود ہے۔ مگر سندھیوں پر شاہ لطیف کے حوالے سے سب سے بڑا احسان جرمنی والوں کا ہے۔ شاہ جو رسالو دنیا میں سب سے پہلے جرمنی سے شایع ہوا ۔ 1866 میں جرمن اسکالر ارنیسٹ ٹرمپ نے شاہ لطیف کی شاعری کا پہلا مجموعہ ترتیب دیکر چھپوایا تھا۔ ۔

یہ ارنیسٹ ٹرمپ اس خطے میں سندھیوں کا ہی نہیں، پختونوں کا بھی محسن ہے کیونکہ اُس نے 1872 میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سندھی الفابیٹ اور گرامر ترتیب دی اور شایع کروائی۔اور اس کے بعد ٹرمپ صاحب نے 1873 میں پشتو گرامر شایع کروائی۔ یہ محسنِ سندھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ریکارڈ آفس انڈیا ہائوس میں اسسٹنٹ لائیبریرین تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).