قصے چند سچی محبتوں اور وسوسوں کے


میں آپ کو چند قصے سنانے والا ہوں۔ بے وجہ نہیں؛ بل کہ میں آپ کو اپنی زندگی کے آیندہ اندیشوں کی خبر دینے والا ہوں۔ کہتے ہیں کہ اپنے اندیشوں کو باآواز بلند بیان کردو، تو ان کی تاثیر زائل ہونے لگتی ہے؛ یہ مشق اس کی ایک کڑی ہے۔ پہلے آپ یہ بتائیے، کیا آپ ایسے خواب دیکھتے ہیں، جن کی ممکنہ تعبیر آپ کو ڈرادیتی ہو؟ میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ ماہر نفسیات کہے گا، یہ خواب نہیں وہم ہوتے ہیں۔ چلیں وسوسے سہی؛ یہ پتنگے عموما کھلی آنکھوں میں آ بیٹھتے ہیں۔ پھر ایسے بستے ہیں، کہ گاہے بگاہے پھڑپھڑاتے ہیں، چمگادڑ بن ڈراتے ہیں۔ نفسیات دان اس کی تفہیم کسی اور طرح کریں گے، مجھے معلوم ہے وہ کیا کہیں گے، لیکن کیا کیا جائے کہ ایسا ہی ہوتا ہے، جیسا میں تصور کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہوں۔ آپ میں سے کچھ ایسے بھی ہوں‌ گے جن کے ساتھ یوں ہوتا ہوگا، کہ کوئی جگہ، کوئی مقام دیکھتے ہی یہ احساس ہوتا ہے، کہ وہ اس موقع پر پہلے بھی آیا ہے؛ کسی اجنبی شخص سے مل کے ایسا محسوس ہوتا ہے، وہ پہلے سے واقف ہے!

میرے ساتھ ایسا کئی بار ہوا ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، مجھے آنے والے پل کی خبر ہوجاتی ہے؛ سب واقعات کی نہیں، لیکن قدرت کے کچھ خاص فیصلوں کا پہلے سے اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ بڑی ہول ناک صورت احوال ہوتی ہے۔ کچھ باتوں کا اپنے وقت سے پہلے نہیں پتا چلنا چاہیے؛ جیسا کہ موت۔

اچھا اِن باتوں کو اپنے ذہن سے جھٹک کے، ذرا اس کردار سے ملیے۔ میری طالب علمی کا زمانہ ہے؛ میرا ہوسٹل انڈسٹریئل ایریا میں واقع تھا۔ ہوسٹل کے اطراف میں فیکٹریاں تھیں، فیکٹریوں کے احاطے میں سکونتی مکان عام سی بات ہے۔ ایسے ہی ایک مکان میں، ایک سن رسیدہ صنعت کار نے اپنی دوسری بیوی کو رکھا ہوا تھا، جو عمر میں اس سے آدھی رہی ہوگی۔ خدا جانے یہ سچ تھا یا جھوٹ، مشہور تھا کہ یہ دوسری بیوی ”بازار“ سے لائی گئی تھی۔ بازار سے ”رُسوائی“ تبھی گھر لائی جاتی ہے، جب اس سے عشق ہوجائے، ایک نیک نامی نہیں، ورنہ کیا ہے جو بازار میں نہیں ملتا! ایک دن میں نے اسے دیکھا بھی؛ ”بازار کی عورت“ دیکھنے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔ کہنے کو وہ ”بازار“ سے لائی جانے والی عورت تھی، لیکن اس کے اطوار شریف بیبیوں سے بڑھ کے نیک تھے۔ بڑی سادہ زندگی بسر کرتی تھی، اور اپنے جیون ساتھی کے ساتھ خوش تھی۔ کبھی کسی کو ایسے ویسے کوئی شواہد نہیں ملے، کہ اس عورت کی پاک بازی پر حرف آتا ہو۔ ہم عجیب لوگ ہیں، کسی کے ماضی کو کہاں‌ بھولتے ہیں، لیکن اس عورت کا ذکر چل نکلے، تو اہل علاقہ گواہی دیتے تھے، کہ اس عورت کے نیک چلن پر کوئی شک و شبہہ نہیں کیا جاسکتا۔ سو! لڑکپن ہی میں ”بازاری عورت“ کا جو تاثر مجھ پر پڑا، وہ اس ”بازاری عورت“ کا ہے۔ بعد میں کئی ”بازاری عورتیں“ دیکھیں، لیکن اس پہلی ”بازاری“ کا تاثر زائل ہوکے نہ دِیا۔

یہ ایک فرضی کہانی ہے؛ اسے فرضی جان کے پڑھیے۔ یہ موصوف شاعر و ہدایت کار ہیں؛ فرض کیا ان کا نام مختار ہے۔ جن دنوں وہ مناہل (فرضی نام) کی زُلفوں کے اسیر ہوئے، ان کے بچے جوان ہوچکے تھے۔ کہا جاتا ہے، کہ مختار صاحب کو اپنے ہر ڈرامے کی ہر ہیروئن سے ”سچی محبت“ ہوجاتی تھی۔ چنچل چتون، چندن سے بدن والی مناہل سے بھی ”سچی محبت“ ہوگئی تھی۔ مناہل اداکارہ تو عام سی تھی، لیکن شعلہ ساماں تھی۔ عمر میں ان سے آدھی سے بھی کم تھی، لیکن ”سچی محبت“ ان رکاوٹوں‌ کی پروا نہیں کرتی۔ مناہل کی ماں نِت نئی فرمایشیں کرتی، جنھیں پورا کرتے کرتے مختار صاحب کی سانس پھول جاتی۔ ایک طرف قرض بڑھتا چلاگیا، دوسری طرف مسز مختار کو خبر ہوگئی، کہ سر کا تاج چھننے کو ہے۔ سچی محبت کی یہ خوبی ہے، کہ اسے پہلی بیوی سے چھپایا جاتا ہے، ورنہ محبت میں کھوٹ‌ آجاتا ہے۔ انھی دنوں یہ راوی ادھر ادھر سے سرمایہ اکٹھا کرکے ایک ٹیلے فلم بنارہا تھا۔ اس فلم میں لیلیٰ (فرضی نام) کو کاسٹ کیا تھا۔ لیلیٰ نہ صرف یہ کہ بہت اچھی اداکارہ ہے، بلکہ شعر و ادب کی دل دادہ بھی ہے؛ وہ فنون و ادب پر گھنٹوں بات کرسکتی ہے؛ اس لیے اس کی جتنی تعریف کروں کم جانیے گا۔ ایک روز سیٹ پر مختار صاحب اور مناہل کے عشق کا چرچا ہوا، تو لیلیٰ نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا، ”مختار صاحب نے غلط لڑکی کا انتخاب کیا ہے“۔

چوں کہ مختار صاحب میرے اساتذہ میں سے ایک ہیں، اس لیے میں بے دھڑک ان کی وکالت کرنے لگا۔ میرے دلائل کے جواب میں، لیلیٰ نے زچ آکے کہا، ”مناہل، مختار صاحب کے کسی ایک شعر کی تشریح تو دُور، ان کے ایک شعر کو تحت الفظ سے پڑھ دے، تو میں‌ اُس کی مرید ہوجاوں‌ گی“۔ میں ہنس دِیا۔ لیلیٰ کا کہنا ٹھیک تھا، لیکن مناہل کیوں تحت الفلظ سے پڑھتی، وہ تو خود ایسی غزل تھی، جسے ایک بار نہیں، بار بار اور ترنم سے پڑھا جانا تھا۔ مختار صاحب اس کہانی کا ایک کردار تھے، وہ انجام سے بے پروا اپنا کردار نباہ رہے تھے، جب کہ ہم کہانی سے باہر بیٹھے، کہانی کے اوراق پڑھ رہے تھے؛ ہمیں کچھ کچھ اندازہ تھا، کہ اس کہانی کا انجام کیا ہوگا؛ وہی ہوا۔ جب مناہل کی ماں‌ کو نذر کرنے کے لیے کچھ نہ رہا، تو مختار صاحب کی تو نہیں، لیکن مناہل کی ”سچی محبت“ دم توڑگئی۔

یہ ایک اور فرضی کہانی ہے۔ پہلے یہ ایک متمول شخص تھے؛ ظاہر ہے کہ ناموں میں کیا رکھا ہے، لیکن چلیں اپنی آسانی کے لیے ان کا نام بھی مختار تصور کرلیتے ہیں۔ مختار صاحب ہر میدان میں کام یابی کے جھنڈے گاڑتے، جب بطور سرمایہ کار شوبز کی دُنیا میں داخل ہوئے، تو ایک معروف اداکارہ کی چاہ میں مبتلا ہوگئے۔ گویا پرواز سے پہلے ہی پر کترلیے گئے۔ ہم اس فرضی کہانی کی فرضی اداکارہ کا نام شہلا تصور کرلیتے ہیں۔ شہلا اتنی کم سنی ہی میں دو امیر شوہروں سے طلاق لے چکی تھی۔ مختار صاحب جو کماتے گئے، اس کی جھولی میں لاڈالتے رہے۔ جب اس ”سچی محبت“ کی خبر پہلی بیوی کو ہوئی تو طوفان کھڑا ہوگیا؛ اولاد باپ کے سامنے تن گئی۔ یہ ان کی دوسری اور شہلا کی تیسری شادی تھی۔ کاروبار ڈوبا، بنکوں کا قرض چڑھا؛ بنگلا فروخت ہوگیا۔ اس دوران شہلا کے نام دو فلیٹ اور ایک کار لگاچکے تھے، ایسے میں نقد اور چھوٹے موٹے تحائف کا کیا حساب! شہلا کو افسوس اس بات کا تھا، کہ اس کے ساتھ تیسری بار بھی دھوکا ہوگیا؛ لوگ بتاتے کروڑوں کا ہیں، لیکن نکلتے کنگال ہیں یا ایک دو ہی برسوں میں دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔ لہاذا مجبوراً شہلا کو کم سنی ہی میں تیسرے سے بھی طلاق لینا پڑی۔

ہندو متھالوجی میں سات جنموں‌ کا ذکر ملتا ہے؛ اسے آواگون کا نظریہ کہتے ہیں۔ آواگون کے نظریے کے مطابق، ایسے اشخاص یا مقام جنھیں دیکھ کے آپ کو یہ احساس ہو کہ آپ ان سے شناسا ہیں، ان کا آپ کے پچھلے جنم سے کوئی ناتا رہا ہوتا ہے؛ اس طرح جو لوگ دیکھتے ہی ناگوار ہوتے ہیں، پچھلے جنم میں ان سے کوئی ناخوش گوار یاد وابستہ رہی ہوتی ہے۔ گویا یہ میرے پچھلے جنم کے کچھ کردار تھے، جن سے آپ کو متعارف کروایا۔

ان قصوں میں اصل بات کہیں کھو نہ جائے۔ میں نے آپ سے کہا تھا، کہ مجھے مستقبل کو لے کرکے کچھ وسوسے ڈراتے ہیں۔ میرا ایک وسوسہ یہ ہے، کہ مجھے عشق ہوجائے گا؛ ایک نہ ایک دن، کبھی نہ کبھی؛ یہ کم بخت ہوجائے گا۔ چھوٹی موٹی محبتیں، ہلکے پھلکے فلرٹ تو بہت ہوئے ہیں، لیکن عشق سے مراد وہ کیفیت ہے، جس میں اپنا آپ گنوا بیٹھتے ہیں۔ یہ منظر میں جامِ جم میں یوں دیکھتا ہوں، کہ میری اولاد جوان ہوچکی ہے، اور مجھے ایک دوشیزہ سے عشق ہوگیا ہے۔ کہنے والے کہ رہے ہیں، کہ ”دیکھو ذرا! اسے شرم نہیں آتی، بجائے اس کے کہ اولاد کی شادیاں کرے، خود مجنوں بنا پھرتا ہے“۔ میرا یہ وہم گاہے بگاہے میری آنکھ کے پردوں کے سامنے رقص کرتا ہے، تو مجھ پر گھڑوں پانی پڑجاتا ہے۔ اس منظر میں مجھے اس کردار کے خال و خد نہیں دکھائی دیتے، جس سے عشق ہونا ہے۔ آپ کہیں گے، کہ ہوسکتا ہے یہ میرے پچھلے جنموں میں سے کسی ایک جنم کی بچی کھچی یاد ہو، جو ستاتی ہو۔ چوں کہ آواگون کے نطریے پر میرا اعتقاد نہیں تو مجھے لگتا ہے یہ قدرت کے ان فیصلوں میں سے ایک ہے، جس کی مجھے پہلے سے خبر ہوجاتی ہے۔

یہ تو دو تین مثالیں ہیں، جو اوپر بیان ہوئیں۔ صاحب! یہ لکھی پڑھی کہاوت ہے، کہ پچھلی عمر کا عشق بڑا رُسوا کرتا ہے۔ خدا سب کی اولاد کو سلامت رکھے، جوں جوں میرے بچے بڑے ہوتے جارہے ہیں، توں توں میرے وسوسوں کے سانپ پھن پھیلائے ابھرتے جاتے ہیں۔ جب تصور کرتا ہوں‌ کہ پچھلی عمر میں یہ سب کچھ میرے ساتھ ہونا باقی ہے، تو کبھی یہ دعا کرتا ہوں، کہ ایسا نہ ہو؛ خدا نہ کرے ایسا ہو۔ کبھی خدا کے حضور گڑگڑاتا ہوں، کہ عشق نصیب ہے، تو تجھ سے ہوجائے، کہ اس عشق میں جگ ہنسائی نہیں۔ تھک ہار کے جب اس نتیجے پر پہنچوں کہ یہ عشق کسی دوشیزہ ہی سے ہوکے رہے گا، تو فریاد کرتا ہوں، کہ وہ اس ”بازاری عورت“ کے مانند ہو، جس نے یوں ساتھ نباہیا تھا، کہ زمانہ رشک کرتا تھا۔ غالب کی طرح سوچوں، تو عشق آتش میں پگھل کے یوں فنا ہونا تحریک دیتا ہے۔

پرتوِ خور سے، ہے شبنم کو، فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں، ایک عنایت کی نظر ہوتے تک

گرچہ عشق گناہ نہیں، پر باپ بن کے سوچوں، تو یہ مطلوب نہیں، کہ ستم گر زمانہ میری اولاد کا ٹھٹھا اڑائے۔ عاشق بن کے تب تک نہیں سوچ سکتا، جب تک عشق کی وحی نہ اُترے۔ جب وحی اُتری، تو نہ سوچنے کا مقام ہوگا، نہ زمانے کی پروا۔ یہ وسوسے ہیں تو عشق کی وحی اُترتے تک۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran