فاٹا کے قبائل اور ہزارہ کمیونٹی کے مسائل میں مماثلت


گذشتہ مہینے عوامی نیشنل پارٹی، اسلام آباد کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس منعقد کروائی گئی جس کا مقصد فاٹا کو خبیر پختونخواہ میں ضم کرنے کے حوالے سے ملک کے تمام اسٹیک ہولڈز کی حمایت حاصل کرنا تھی۔ اسی کانفرنس میں دوسروں کے علاوہ، سلیم صافی صاحب نے بھی خطاب کیا اور فاٹا کو خیبر پختونحواہ میں ضم کرنے کے حوالے سے اپنا نقطہء نظر خوبصورت پیرائے میں پیش کیا۔ موصوف کا یہ کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کے پختون روہنگیا کے مسلمانوں سے ذیادہ مظلوم ہیں کیونکہ روہنگیا پر وہاں کے بدھسٹ ظلم کررہےہیں جبکہ یہاں کے قبائلیوں پر ہمارے اپنے لوگ کئی سالوں سے ظلم کرتے آرہے ہیں۔ روہنگیا کے ابتر صورت حال کی وجہ سے وہاں کے مسلمان اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں در بدر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ پختون قبائل بھی پے در پے فوجی آپریشنز کی وجہ سے مک کے دوسرے حصوں میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی گئی۔ اقوام متحدہ اور عیسائیوں کے پوپ نے بھی ان کے حق میں بیان دیا جبکہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے بھی آواز اٹھائی۔ بالکل اسی طرح، واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز، الجزیرہ اوربی بی سی جیسے بڑے نشریاتی ادارے بھی اس واقعہ سے متعلق پل پل کی خبر دے رہے ہوتے ہیں مگر فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں آباد قبائلیوں کے گمبیھر مسئلے کو نا تو بین الاقوامی میڈیا کوریج دے رہا ہے اور نا ہی پاکستانی میڈیا کو ان چیزوں کو نشر کرنے کی فرصت ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان کا کوئی سیاسی لیڈر یا صحافی قبائلی علاقوں کے مسلے کو اجاگر کیے بغیر کیونکر کسی اور قومی یا بین الاقوامی ایشو کو موضوع بحث بنا سکتے ہیں؟

سلیم صافی صاحب، نا انصافی اور ظلم روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہو یا کہ پختون ‍قبائل کے ساتھ، یقینا ہمیں بحثیت انسان آپ کے خدشات اور شکایات کا بخوبی علم ہیں اور ہم اس موضوع پر آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں مگر ہزارہ قوم کی نسل کشی کامسئلہ بھی انہی حوالوں سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ اس نہتی قوم کو گذشتہ بیس سالوں سے جس بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے اس پر کوئی باشعور انسان چپ نہیں رہ سکتا۔ چونکہ ہزارہ قوم پر نا تو کوئی دہشت گردی کا الزام ہے اور نا ہی ان کی وفاق سے علیحدہ ہونے کی خواہش بلکہ یہ تو پاکستان سے انتہائی محبت کرنے والے، اعلی تعلیم یافتہ اور پرامن قوم ہے۔ اب تو گذشتہ کئی سالوں سےآٹھ لاکھ کی آبادی کو ان کے علاقوں میں مقید کر دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں تعلیم، روزگار، تجارت، اور ملک کے اندر آذادانہ نقل و حرکت کے دروازے مکمل طور پر بندکیے جا چکے ہیں۔ حتی کہ علاج و معالجے کے لئے بھی انہیں اپنے علاقوں سے باہر نکلنے پر قتل کیا جاتا ہیں۔ ان کی پوری آبادی ناگہانی خوف میں مبتلا ہے۔

امن و امان کے مخدوش ہوتے حالات کی وجہ سےاس قوم کے ہزاروں لوگ ہجرت کرکے دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ کئی سالوں قبل، اس قوم کی شرح خواندگی 98 فیصد تھی مگر پے در پے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے سبب ان کی پہنچ ملک کے دوسرے تعلیمی اداروں سے کٹ گیا جس کا ناقابل تلافی نقصان اس قوم کو ہوا ہے اور یہ شرح خواندگی کم ہو کر صرف 20 فیصد رہ گئی ہے۔ دوسری طرف، سرکاری دفاتر میں ملازمت کرنے والے ہزارہ کی بہت بڑی تعداد عدم تحفظ کی وجہ سے اپنی ملازمتیں چھوڑ کر گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ کوئٹہ میں آباد ہزارہ قوم چونکہ اقلیتی آبادی کے طور پر دیکھی جاتی ہے اس لیے پاکستان کے دے کر حصوں میں رہنے والے دوسرے قبائلیوں کی طرح نا تو ان کے پاس کوئی قدآور سیاسی شخصیت موجود ہے اور نا ہی صحافتی شعبہ میں آپ جیسا پرخلوص تجزیہ نگار اور اینکر، جو اس قوم کے ساتھ روا رکھی جانے والی مظالم کو دنیا تک پہنچا سکے۔

بدقسمتی سے ہزارہ قوم کا یہ المیہ بھی ہے کہ انہیں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی طرف سےمسلسل نظرانداز کیا جارہایے۔ کوئٹہ شہر میں آباد ہونے کے سبب اور بے دست و پا ہونے کی وجہ سے آج تک کوئی ان کا درد بانٹنے نہیں آیا۔ فاٹا کے قبائلی تو پھر بھی خوش نصیب ہیں کیونکہ آج نہیں تو کل وہ خیبرپختونخوا کا حصہ بن جائے گے جس سے ان کے لئے ترقی کی راہیں کھلے گی۔ ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں بھی ان کے ساتھ ہیں مگر ہزارہ قوم پر مسلط کردہ یہ نامعلوم افراد کب تک انھیں مزید خاک و خون میں نہلا کر اپنی پیاس بجھاتے رہے گے؟ بلوچستان میں فرقہ واریت وجود نہیں رکھتی اور نام نہاد دہشت گردوں کو اس صوبہ میں باہر سے لاکر بسایا گیا۔ آخر کب تک ایسی پرامن اور تعلیم یافتہ قوم کا قتل عام کروایا جائے گا؟ اس کا جواب مقتدر حلقوں کے علاوہ، شاید کسی کو معلوم ہو۔ ان حالات میں ان کے قاتلوں کی گرفتاری ایک خواب ہے۔

آپ پھر بھی خوش نصیب ہے کہ کم از کم پختونوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف موثر آواز اٹھا سکتے ہے چاہے وہ سی پیک کا مسئلہ ہو یا کہ فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے کا معاملہ۔ لیکن ہزارہ قوم کو یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں کون اور کس مقصد کےلیے قتل کر رہا یے؟ کیا کبھی انہیں انصاف ملے گا؟ کیا کبھی ان کے قاتلوں کو گرفتار کرکے پھانسی دی جائے گی؟ ان سوالات کی تلاش ہر باشعور شخص کو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).