تحریک لبیک (دھرنا پارٹ  ٹو )


تحریک لبیک کے دوسرے گروپ جس کے امیر خادم رضوی ہیں 6 نومبر کو لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ ان کا بھی  حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ ان کے وہی مطالبات  تسلیم کئے جائیں جو ڈاکٹر اشرف آصف جلالی منظور کروا کر لاہور واپس  لوٹے ہیں۔ ایک طرف ڈاکٹر اشرف آصف جلالی والی تحریک لبیک فتح کا جشن منا رہی ہے،داتا دربار لاہور کے مقام پر ان کے بقول دھرنے کے شرکاء جو ذیادہ تر ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کے مدرسے کے طالب علم ہی تھے کا تاریخی استقبال کیا گیا اور کوئی کانفرنس بھی منعقد کی گئی۔ ڈاکٹر  صاحب  نے اسلام آباد سے گلے میں ہار ڈالے تھے جو ابھی تک اتارے نہیں،مبارکبادیں وصول کی جا رہی ہیں تو خادم رضوی صاحب نکل پڑے۔

دونوں صاحبان کے اختلافات کی خبروں پر کچھ لوگوں نے یہ منطق پیش کی کہ خادم رضوی پشاور الیکشن میں  مصروف تھے اسلئے دھرنے میں شرکت نا کر سکے۔ میرے خیال میں اب خادم رضوی اپنے تمام کام نمٹا چکے ہیں اس لئے ایک نیا دھرنے دینے لگے ہیں جس کی کوئی تک نہیں بنتی۔ موصوف کی ذہانت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ انکے حالیہ بیان میں ان کا کہنا تھا کہ تحریک کا امیر چونکہ میں ہوں ،اگر اس لانگ مارچ سے میرے  کوئی ذاتی مفاد منسلک ہوں تو اللہ مجھے موت دے دے۔ مریدین تلملا اٹھے۔ موت تو مقررہ وقت پر آنی ہے لیکن عوام کو بیوقوف بنانے کا یہ عمل جاری ہے  اور جاری رہے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں ہمارے پچھے کوئی نہیں۔ ارے بھائی اگر آپ کے پچھے کوئی نہیں  ہے تو آپ  کیوں صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔

ڈاکٹر اشرف آصف جلالی اور خادم رضوی صاحبان کے درمیان اب   پاور شو کی گیم بھی چل رہی ہے۔ خادم رضوی اب اپنے دھرنے کی تعداد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ میرے ساتھ عوامی ہمدردی زیادہ ہے اور یقینا ہے بھی ایسا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سر فہرست خادم رضوی کی مضبوط اور پیشہ ور سوشل میڈیا ٹیم ہے۔ دوسرا وہ اپنی معذوری کو بھی بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں  اور ہمدردی سمیٹٹے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح وہ بھی صرف وہ باتیں کرتے ہیں جو عوام کو پسند ہوں اور جو وہ سننا چاہتے ہوں اور بازاری زبان کا تڑکا اوپر سے گھی شکر ثابت ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).