روشنی بچاؤ مہم کہاں سے آئی؟


جاڑے کی نرم و ملائم ہلکی زرد دھوپ اس وقت میز پر پھیلی ہوئی ہے۔ کرنیں آتے جاتے بادلوں کی اوٹ میں آنکھ مچولی کرتے سائے بنا اور مٹا رہی ہیں۔ گداز ہوا پتوں سے خزاں کی آمد کی سرگوشیاں کرتی گزر رہی ہے۔

کبھی کہا جاتا تھا کہ
وقت ہر درد کی دوا ہے مگر
وقت پر اختیار بھی تو نہیں

مگر آج کی صدی میں حضرت انسان نے کچھ تھوڑے بہت اختیارات حاصل کر لیے ہیں۔ سبز پتوں کو لال پیلا ہوتا دیکھ کر یاد آیا کہ گھڑی ایک گھنٹہ پیچھے کرنے کا دن آ گیا ہے۔ یہ عمل ہمیں ایک گھنٹہ پیچھے تو لے جاتا ہے مگر ماضی کا کوئی لمحہ واپس نہیں دلا سکتا۔ اس کی تمنا بے سود ہے۔
غالب نے اپنے آئینہ ادراک میں آنے والے وقت کی دھندلی سی جھلک دیکھ کر ہی کہا تھا

مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس دم
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

تو جناب اس ” روشنی بچاؤ مہم ” کی بنیاد یوں پڑی کہ یورپی قوم کو بجلی بچانے کا شاندار آئیڈیا آیا۔ خط استوا سے دور واقع ملکوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ اس عمل سے بجلی کے استمعال میں پورے ایک فیصد کی بچت ممکن ہے۔ ( لگتا ہے لوڈ شیڈنگ کا خیال انھیں نہ آیا)

جو ممالک خط استوا کے قریب واقع ہیں انھیں اس تکلف کی ضرورت نہیں کیوں وہاں رات دن کا میزان برابر رہتا ہے۔
جرمنی پہلا ملک تھا جس نے اس روایت کا آغاز اپریل 1916 میں کیا۔ یورپ کی دیکھا دیکھی امریکی صدر صاحب کو بھی یہ خیال آیا کہ سردیوں میں لوگ اگر ایک گھنٹہ پہلے اٹھ جایئں تو شام میں موم بتیوں کا استمعال خاصہ کم ہونے کا قوی امکان ہے اور دن کی روشنی سے لوگ زیادہ مستفید ہو سکتے ہیں۔

معاشی اور اقتصادی طور پر مظبوط قومیں اپنے ہر گھنٹے کا حساب رکھتی ہیں۔ کہاں گھنٹہ بڑھانا ہے کہاں گھٹانا ہے، کتنا بچانا ہے اور کتنا منافع کمانا ہے ؛ خیر جانے دیجئے ہمیں ان باتوں سے کیا لینا۔
ہم تو غالب کی روش پہ قائم تھے اور فرصت و فراغت کے خواب دیکھتے تھے
جی ڈھونتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

پر برا ہو اس امریکی معاشرتی نظام کا جو جاناں سے بات تک کرنے کی مہلت اور فرصت نہیں دیتا، تصور تو دور کی بات ہے!
تب ہم دونوں وقت چرا کر لاتے تھے
اب ملتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ وقت برباد کرنے والوں کو وقت برباد کر دیتا ہے، لہٰذا ہمارا سر تسلیم خم ہے وقت کے آگے۔ وقت ایک بہت ہی معتبر مگر نہایت ہی سفاک استاد ہے جو سبق بعد میں دیتا ہے اور امتحان پہلے لیتا ہے۔ وقت کا دامن تھامے، موسموں کی ڈوری پکڑے سال کے 365 دنوں کا سفر جاری رہتا ہے۔ کیسے رات کی کالی ڈوری صبح کی سفید ڈوری میں تبدیل ہو کر نئے دن کا آغاز کرتی ہے اور وقت دبے پاؤں گزرتا چلا جاتا ہے آہٹ کیے بغیر۔

سو اس جہان بے ثبات میں ہمارا شمار عام رعایا میں ہوتا ہے جس کو حکم ہے کہ گھڑی ایک گھنٹہ پیچھے کرے، اور کام ایک گھنٹہ زیادہ۔ لہٰذا حکم کی تعمیل میں جن جن گھڑیوں تک رسائی ممکن تھی ان کی سویاں درست کی گیئں خاص طور پر کچن میں لگے مائکرو وؤ اون کی۔ آج کے دور میں یہ حساب لگانا مشکل ہے کہ اس گھنٹے میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس کے باوجود دل کو بے نام سی تسلی اور دھیما سا دلاسہ دیا کہ اب ہم بھی وقت کے ساتھ قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ

وقت کی سعی مسلسل کارگر ہوتی گئی
زندگی لحظہ بہ لحظہ مختصر ہوتی گئ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).