سردیوں کے کپڑے ۔۔۔


1995 کے وسط کی بات ہے۔ بیلجیم سے ہم دو دوستوں نے امریکہ جانے کا پروگرام بنایا۔ ہمارے پاس جو بیلجیم کے پاسپورٹ تھے وہ جعلی تھے۔ ہم بیلجیم میں سیاسی پناہ کی درخواست دے چکے تھے۔ عارضی طور پر سکونت کا اجازت نامہ بھی مل چکا تھا۔ مگر دماغ میں امریکہ اٹکا ہوا تھا۔ میرا دوست سخاوت شاہ امیگریشن سے کلیر ہو گیا اور میں پکڑا گیا۔ مجھے ڈچ امیگریشن افسر کا تکبر بھرا جملہ آج بھی یاد ہے۔ تم نے غلط جگہ کا انتخاب کیا ہے۔ ہماری آنکھوں میں کوئی دھول نہیں جھونک سکتا۔ وہ جس وقت یہ بڑ ہانک رہا تھا اس وقت سخاوت شاہ جہاز میں بیٹھ چکا تھا۔

وہ مجھے ہوائی اڈے کے قریب ہی ایک عارضی جیل میں چھوڑ کر چلے گئے۔ ڈی پورٹ نہیں کر سکتے تھے کہ میرے پاس بیلجیم میں عارضی سکونت کے کاغذات تھے۔ وہاں سے تصدیق آنے تک مجھے دوچار دن جیل میں ہی گزارنے تھے۔ میری تمام پریشانی کا بہت سارا حصہ اس وقت غائب ہو گیا جب میں نے وہاں ایک سردار جی کو دیکھا۔ سردار جی بھی ہالینڈ میں داخل ہوتے وقت دھر لیے گئے تھے۔ ایک کمرے میں ہم دو ہی بندے تھے اور خوش قسمتی سے دونوں پنجابی۔ رات کا کھانا کھا کر بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھ لیا، سردار جی اپنے دیس میں کیا کرتے تھے۔

اب باقی کی اصل کہانی ان سے سنیے۔

مترا میں ٹرک ڈرائیور تھا۔ یہ بتا کر وہ چھت کو گھورنے لگے۔ زندان کی رات کا یہی آسمان جو ہوتا ہے۔ کئی لمحے گزر گئے پھر بولے، لو جی ٹرک ڈرائیور کی زندگی میں بہت ساری کہانیاں ہوتی ہیں مگر یہ کہانی مجھے ساری زندگی نہیں بھولے گی۔ میرا ابھی ویاہ نہیں ہوا تھا۔ مال لے کر دلی گیا ہوا تھا۔ دوسرے دن واپسی تھی۔ ایسے میں ٹرک ڈرائیور موج میلا کر لیتے ہیں۔ میں آرام کرنا چاھتا تھا لیکن راستے میں ایک ڈرائیو دوست سوڈھی مل گیا۔ ہم نے ایک پنجابی ڈھابے سے گڑ والی چاے پی۔ اتنے میں سوڈھی نے میرے پٹ پر چپیڑ مار کر کہا، لے جسبیریا کی یاد کریں گا اٹھ میرے نال چل۔ (لو جسبیر سنگھ، کیا یاد کرو گے۔ اٹھو، میرے ساتھ چلو)۔ یہ کہہ کر اس نے ایک رکشے کو ہاتھ دیا۔ میں سمجھا کسی کوٹھے پر مجرے سنوانے لے جائے گا۔

رکشہ ایک ماڑی سی گلی میں جا رکا۔ ایک ٹوٹے پھوٹے دروازے پر اس نے دستک دی۔ کہنے لگا سودے کے لیے پیسے دے گا تو کھانا بھی سوادی ملے گا۔ صبح منھ سویرے آ ٹھ آنا اور دو تین سو دے دینا۔ یہ کہہ کر وہ جلدی سے واپس پلٹ گیا۔ اتنی دیر میں دروازہ کھلا ایک بیس پچیس سال کی عورت کھڑی تھی۔ دبلا پتلا جسم سوتی بدرنگی پرانی مگر صاف ستھری ساڑھی۔ پانوں میں ہوائی چپل۔ کانوں میں چاندی کی بالیاں۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی جیسے پہچان نہ پا رہی ہو۔ جی مجھے سوڈھی یہاں چھوڑ گیا ہے۔ یہ سن کر اس نے مجھے راستہ دے دیا۔

کچا سا صحن مساں ایک مرلے کا ہو گا۔ پیچھے دو ماڑے سے دو دو چال کے کمرے۔ ایک کمرے میں اس نے مجھے بٹھایا۔ کھانا کھاہیں گے؟ مرغا بنا سکتی ہو؟ جی ہم تو ماس نہیں کھاتے مگر بنا دوں گی۔ میں نے جوبھے میں ہاتھ ڈال کر 200 اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ کھانا کھا کر میں نے وہیں پاؤں پسار لیے۔ وہ دوسرے کمرے میں بچوں کے پاس چلی گئی تھوڑی دیر بعد بتی بجھ گئی۔ میری آنکھ لگی ہی تھی کہ چارپائی پر اندھیرے میں بوجھ سا محسوس ہوا۔

سحری کا مرغا بولا تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔ پہلو سے ایک سرگوشی سنائی دی، بتی نہ جلانا بچے اٹھ جائیں گے۔ میں نے الگ سے رکھے 300 سرہانے رکھے اور باہر نکل آیا۔ دوسرے دن سراے ہوٹل سے دن گیارہ بجے آنکھ کھلی۔ اٹھا تو خیال آیا کہ جس بنڈی کی جیب میں حساب کے ستر ھزار پڑے تھے وہ تو رات وہیں چھوڑ آیا۔ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ بھاگ کر رکشے میں بیٹھا راستے میں یہی سوچتا رہا۔ جسبیریا ایہ مال ہتھوں گیا سمجھ۔ (جسبیر سنگھ، یہ روپے تو سمجھو ہاتھ سے نکل گئے)

 دروازہ کھلا ہوا تھا۔ میں آپنے گھر کی طرح اندر جا گھسا۔ وہ صحن میں بیٹھی دیگچی مانجھ رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر بڑے آرام سے اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ واپس آئی تو ہاتھ میں بنڈی تھی۔ اپنی رقم گن لیں سردار جی۔ ہم نہ چور ہیں نہ پیشہ ور۔ وہ تو بس بچوں کے پاس سردیوں کے کپڑے نہیں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).