نصیب کے کرشمے


میں کمپیوٹر کو آپریٹ کرنا اس لیے نہ سیکھ سکا کہ میرے بچوں میں اتنا صبر اور تحمل نہ تھا کہ میرے ساتھ سر کھپاتے اور میں بھی ایک بھس بھرے دماغ والا بوڑھا تھا جو آسانی سے کچھ بھی سمجھ نہ سکتا تھا اگرچہ مجھ سے کہیں بزرگ حضرات راتوں کو چھپ چھپ کر کمپیوٹر پر رنگین فلمیں دیکھتے ہیں اور پوری دنیا کی دوشیزاؤں سے فلرٹ کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں سمیر نے میرا سیل فون قابو کیا اور کہا ’’ابو آپ مجھ سے پرانے گانوں اور غزلوں کی فرمائش کرتے رہتے ہیں کہ یہ سنا دو، وہ میرے بچپن کا گیت سنا دو تو دیکھئے آپ نے اس سیل فون پر سرخ مستطیل والا ’’یوٹیوب‘‘ کے نقش کو چھونا ہے، آپ کے سامنے سکرین پر ایک ٹائپ رائٹر آجائے گا، اس پر جو جی چاہے ٹائپ کر دیجیے آپ کے دل کی مراد پوری ہو جائے گی۔

یقین کیجیے میری تو موج ہو گئی۔ پرانے گانے، دنیا بھر کے ادیب، مذہبی پروگرام، کوریا اور کمبوڈیا کی ہیجان خیز فلمیں۔ بینگن اور گھیا کدو کاشت کرنے کے طریقے، سفرنامے، تبت کے راہبوں کی خفیہ زندگی، سانپ پکڑنے کے نسخے، اسلام کے مخالف اور حق میں بحثیں، ایورسٹ اور کے ٹو کی کوہ پیمائی، غرض کہ جو خواہش کرتا وہ لمحوں میں میرے سیل فون کی سکرین پر حاضر ہوجاتا۔ اس دوران جہاں میں نے ملالہ کی زندگی کے بارے ایک ڈاکو منٹری دیکھی اور اس کی حیران کرنے والی نہایت مؤثر تقریریں سنیں وہاں میں نے راحت فتح علی خان کے دو کانسرٹ بھی دیکھے، وہ یو این او میں پرفارم کر رہا تھا اور پھر جب ملالہ کو نوبل انعام عطا کیا گیا تو نوبل ایوارڈ محفل میں اس کی یادگار پرفارمنس، میں نہ صرف لطف اندوز ہوا بلکہ ایک سوچ میں مبتلا ہو گیا۔

یہ سب تو نصیب اور اتفاق کے کھیل ہیں۔ انسان تو ایک برفانی ندی کی تند لہروں پر بے بس اور بے اختیار ایک تنکا ہے۔ وہ تو مجبور اور حالات کے رحم و کرم پر ہے۔ اگر نصرت فتح علی خان اتفاقاً قدرے مختصر عمر میں مرنہ جاتا تو راحت آج بھی اس کے ہم نواؤں میں سے ایک تالیاں بجا رہا ہوتا۔ کبھی کبھار ایک خراش زدہ آواز میں تان لگاتا اور پھر تالیاں بجانے لگتا۔ کئی لوگ اسے ’’بینڈا‘‘ کہا کرتے تھے۔ اُس کی آواز کچھ زیادہ رسیلی نہ تھی۔ چونکہ نصرت نے اپنی زندگی کے آخری دو پروگرام ’’میرے نام‘‘ میں میری میزبانی کے تحت کیے تو ان کی وفات کے بعد اُں کے دسویں پر جب ان کے جانشین کا اعلان ہونا تھا اس محفل کی میزبانی ان کے خاندان کی خواہش کے مطابق مجھے سونپی گئی۔

میرے علاوہ شبانہ اعظمی کے میاں جاوید اختر بھی سٹیج پر میرے رفیق تھے۔ راحت کو جانشین قرار دیا گیا اور وہ اُس شب گاتا تھا اور نصرت کی بیوہ اور بیٹی ندا کو غش پڑتے تھے۔ تب میرا نہیں خیال تھا کہ راحت کبھی گائیکی میں کوئی بلند مقام حاصل کرے گا لیکن نصیب اُسے عروج پرلے گیا۔ یوں بھی اس نے اپنے تایا یا شاید چاچا نصرت کے ہمراہ سٹیج پر بیٹھ کر جو برس گزارے، اس نے اتنے برس نصرت کی پیروی کر کے کلاسیک میں کمال حاصل کر لیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے اپنے آپ کو نصرت کا وارث ثابت کر دیا بلکہ شہرت میں اُن سے کہیں آگے چلا گیا۔ محض نصیب کی بات ہے، اگر نصرت زندہ رہتا تو راحت۔ ابھی تک ایک کونے میں بیٹھا تالیاں پیٹ رہا ہوتا، گمنام ہوتا!

راک ہڈسن ’’کم سیپٹمبر ‘‘ اور ’’اے فیئرویل ٹو آرنر‘‘ کا بانکا ہیرو ایک ٹرک ڈرائیور تھا، ہالی وڈ کے کسی سٹوڈیو کو خوراک وغیرہ کے کارٹن دینے جاتا تھا، ایک ڈائریکٹر نے اسے دیکھ لیا، وہ ایک ہینڈسم شخص تھا، ہالی وڈ پر بہت مدت راج کیا اور پھر ایڈز لاحق ہوئی اور مر گیا۔ صوفیہ لارین روم کے نائٹ کلبوں میں درجنوں دیگر لڑکیوں کے ہجوم میں نیم برہنہ رقص کرتی تھی، کسی ہدایت کار کی نظر میں آ گئی اور ایک دنیا کی محبوب ترین خوش بدن عورت ہو گئی۔

ایک مشہور برطانوی نقاد کی عادت تھی کہ وہ سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکانوں پر جا کر درجنوں گمنام پڑی کتابوں کو خریدتا تھا، کچھ ایک کو سر سری پڑھتا تھا اور بقیہ کو ردی کی ٹوکری کی نذ ر کر دیتا تھا۔ اور اُن میں سے ایک ناول رچرڈ باخ کے نام کے کسی شخص کا ’’جو نتھن لونگ سٹون سی گل‘‘ ایسے بیہودہ نام کا بھی تھا جو کئی برس پہلے کسی پائلٹ نے لکھا اور وہ ردی میں فروخت ہو گیا۔ اُس نقاد نے اس سمندری پرندے لونگ سٹون کی زندگی پر مبنی ناول کے بارے میں لنڈن ٹائمز میں ایک توصیفی مضمون لکھا۔

یہ ناول دنیا بھر میں بیسٹ سیلر ہوا بلکہ میگزین ’’ٹائم‘‘ کے سر ورق پر سمندری پرندے لونگ سٹون کی تصویر شائع ہوئی اور ہالی وڈ میں اس ناول کی کہانی کی فلم بنائی گئی۔ آپس کی بات ہے کہ جہاں فرید الدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘ کے پرندے میری تحریر میں اکثر اڑان کرتے ہیں وہاں وہ سمندری بگلا بھی اپنے فلسفے بیان کرتا کہتا ہے کہ اڑان کی کوئی حد نہیں ہونی چاہیے، اس حد کے پار بھی تو جانا چاہیے، چاہے جان جائے۔ دور کیا جانا میں خود ایک ادیب اور میڈیا پرسن کی حیثیت سے نصیب کے ایک حادثے کی پیداوار ہوں۔ مجھے بچپن سے ہی کچھ شوق نہ تھا۔ میں نے سر پر کوئی کفن نہ باندھا تھا کہ میں نے تو بہر طور ایک بڑا ادیب بننا ہے، میڈیا کے مختلف شعبوں، اداکاری، ڈرامہ نگاری اور میزبانی میں نمایاں ہونا ہے۔ یہ تو نصیب کے اتفاقات تھے جو مجھے دھکیل کر تخلیق کے ان بے انت صحراؤں میں لے گئے۔

مجھے آج بھی ستتر برس کی کب سے فوت ہو جانے والی عمر میں یقین نہیں آتا کہ یہ کیسے نادان لوگ ہیں کہ پچھلے پچیس برس سے مجھے پاکستان میں نثر کا بیسٹ سیلر بنائے ہوئے ہیں، مجھ پر نہ صرف درجنوں ایم فل کے مقالے لکھ چکے ہیں بلکہ پشاور یونیورسٹی کی سلمیٰ کاشمیری میرے سفرناموں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے باقاعدہ ڈاکٹر ہو چکی ہے۔ ویسے میں ان پڑھنے والوں کی نادانی کا تہ دل سے شکر گزار ہوں کہ اگر یہ نادان نہ ہوتے تو میں بھی نہ ہوتا، اور میں بھی کہاں کا یکتائے روزگار تھا، محض ایک اتفاق اور ایک حادثے کی پیدا وار تھا۔
اب تو تقریباً پچاس برس کا قصہ ہے لیکن میرے ٹیلی ویژن کے کیئریئر کا آغاز ایک جوئے سے ہوا، ایک ٹاس سے ہوا اور میں ہار گیا۔

میں نے 1969ء کی طویل سیاحت کو اردوبازار سے خریدے ہوئے دو لکیر دار کاغذوں والے رجسٹر میں نہایت عرق ریزی سے لکھا۔ میرے سفرنامے کو کوئی شائع کرنے پرآمادہ نہ ہوا اور پھر تلمیذ حقانی آگیا۔ تلمیذ ایک نصیب تھا، وہ مجھے ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ کے مقبول جہانگیر کے پاس لے گیا، ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ کا پہلا عنوان ’’جائیو نہ بدلیں‘‘ تھا۔ سیارہ ڈائجسٹ کے پبلشنگ ہاؤس نے میرا پہلا سفر نامہ شائع کیا اور وہ مجھے نامور کر گیا۔ لیکن اس ناموری میں نہ تو میری تخلیقی صلاحیتوں اور نثر کی سحر انگیزی کا کچھ کمال تھا۔ محض نصیب تھے، بخت تھے، جو مجھے لے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar