انتقام میں دشمن کی بہنوں کو برہنہ کرنے والے درندے


گزشتہ دنوں ہمارے ملک کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک چودہ سالہ لڑکی کو برہنہ کر کے گاؤں کی گلیوں میں گھمایا گیا۔ قصور یہ تھا کہ لڑکی کا بھائی گاؤں کی کسی لڑکی کی محبت میں مبتلا تھا۔ مخالف فریقین کو انتقام کا بہترین طریقہ یہی لگا کہ لڑکے کی بہن کو برہنہ کر کے گلیوں میں گھمایا جائے۔ لڑکی کو ایک گھنٹے تک برہنہ حالت میں گھمایا گیا۔ واقعہ پر عموما خاموشی طاری رہی۔ ذہن میں سوال نے سر اٹھایا کہ اگر انہی گلیوں میں کوئی خاتون اپنی مرضی سے معاشرے کے لیے ناقابل قبول لباس میں گھومی ہوتی تب بھی کیا ایسے ہی خاموشی طاری رہتی یا سب کو اخلاقیات کے سبق دہرانے کا سنہری موقع ہاتھ آجاتا؟ ہماری قومی غیرت کا ایک دلچسپ پہلو بھی سامنے آیا کہ یہ اپنے سے ظاقتور کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت نہیں کرتی۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ بھی نہیں ہے۔ اس قسم کے واقعات تواتر سے خبروں کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ ابھی تو ملتان کا افسوسناک واقعہ بھی زیادہ پرانا نہیں ہوا ہے جہاں جرگے کے فیصلے پر ایک نوجوان لڑکی کو اس لیے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس کا بھائی ایک بارہ سالہ لڑکی سے زیادتی کا مرتکب ہوا تھا۔ چند ایک واقعات پر ہی کیا موقوف، یہاں تو ونی جیسی رسمیں اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ بے گناہ لڑکیاں اپنے خاندان کے مرد حضرات کے کیے گئے جرائم کا کفارہ ادا کرتی رہیں۔ لیکن آخر وہ کون سی سوچ ہے جو اس قسم کے واقعات کا باعث بنتی ہے؟

کچھ عرصر قبل فیس بک پر ایک کہانی پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں باپ کی بد کاریوں کی سزا بیٹی کو دلوا کر ’انصاف‘ کا تقاضہ پورا کیا گیا۔ اکثر قارئین نے داد دی تو چند ایک نے سوال بھی اٹھایا کہ باپ کے قصور کی سزا بیٹی کو کیوں؟ جواب یہی ملا کہ اگر آپ کی کسی قیمتی شے کو کوئی نقصان پہنچائے تو بہترین انتقام یہی ہے کہ آپ بھی اس شخص کی اسی قیمتی شے کو نقصان پہنچائیں۔ تان پھر وہیں آکر ٹوٹتی ہے کہ ہمارے معاشرے عورت کو آج تک مرد کی ملکیت سے بڑھ کر کوئی مقام دیا ہی نہیں گیا۔ اسی لیے ہمیں یہ بات سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ عورت اپنے باپ بھائی سے مختلف ایک منفرد انسان ہے۔ وہ اپنے والد اور بھائی کے نہیں بلکہ محض اپنے اعمال کی ذمہ دار ہے۔

شاید کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ توجیہہ آتی ہو کہ والد اور بھائی بہن بیٹیوں سے محبت کرتے ہیں تو بہن بیٹیوں کو تکلیف دے کر مرد حضرات کو تکلیف کا احساس دلایا جا سکتا ہے۔ یہاں ہم بڑی سہولت سے یہ بات نظر انداز کر جاتے ہیں کہ جن علاقوں میں اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں، وہاں اکژ بھائی ایسے ہیں جو اپنے گھروں میں بہنوں کے ساتھ برتا جانے والا امتیازی سلوک خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں۔ جب گھر میں موجود بہترین خوراک ان کے حصے میں آتی ہے تو وہ اسے اپنا حق سمجھ کر بخوشی قبول کرتے ہیں اور یہ سوال نہیں اٹھاتے کہ بہن کے ساتھ برابری کا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا۔ بہنوں کو جائداد کے جائز حصے سے محروم کر دینے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔

خیبر پختونخواہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا، اسی صوبہ کے ضلع چارسدہ میں پشاور یونیورسٹی کے زیر انتظام 2009 میں کی گئی ایک تحقیق میں شامل مردوں میں سے٪ 62 نے اقرار کیا کہ انہوں نے اپنی خواتین کو تقاضہ کے باوجود بھی زمینوں میں ان کا حصہ نہیں دیا جبکہ ٪ 77 خواتین کا کہنا تھا کہ مانگنے کے باوجود ان کے خاندان کے مردوں نے انہیں جائداد میں حصہ نہیں دیا۔ اس قسم کے حالات میں جہاں عورت پہلے ہی اپنے والد اور بھائیوں کی طرف سے نا انصافی کا شکار ہو، وہاں انہی باپ بھائیوں کے جرائم کی سزا بھی بہن بیٹیوں کو دینا انصاف نہیں بلکہ بدترین ظلم ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ معاشرے میں خواتین سے متعلق فرسودہ سوچوں اور رسوم و رواج کے خاتمے کے لیے کوششیں کی جائیں۔ اس کے لیے معاشی اور سماجی امور میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانا بےحد اہم ہے۔ اگرچہ یہ ایک بےحد طویل سفر ہے لیکن اگر اسے آج بھی شروع نہ کیا گیا تو آئندہ کئی دہائیوں تک بھی مردوں کے جرائم کی پاداش میں یہ معاشرہ بہن بیٹیوں کو یوں ہی بے لباس کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).