سعودی عرب میں انسدادِ بدعنوانی مہم سے چھلکتی ولی عہد کی بےرحمی


سعودی عرب میں بڑے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ شہزادوں، وزرا اور معروف کاروباری افراد کو گرفتار کر کے انھیں ایک پرتعیش ہوٹل میں قید کیا گیا ہے۔ ان پر بدعنوانی کا الزام لگا کر ان کے طیاروں کو روک لیا گیا ہے اور اثاثے منجمد کر دیے گیے ہیں۔

اس سب کے پیچھے 32 برس کے ولی عہد محمد بن سلمان ہیں جو حال ہی میں بنائی گئی انسدادِ بد عنوانی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔

تو یہ سب کس لیے ہے؟ کیا یہ واقعی بدعنوانی کے خلاف ہے یا پھر یہ اختیارات کے حصول سے زیادہ کچھ نہیں؟ جواب ہے، یہ دونوں باتیں ہیں۔

سعودی عرب میں بدعنوانی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ رشوت اور کسی کام کے عوض خطیر رقم بطور تحفہ دینا سعودی عرب میں کاروبار کرنے کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے۔

اہم عہدوں پر تعینات رہنے والے افراد میں سے زیادہ تر نے خوب دولت جمع کی ہے۔ چند ایک معاملات میں تو بات اربوں ڈالرز تک پہنچ گئی جو کہ ان کی سرکاری تنخواہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس دولت کا خاصا حصہ آف شور اکاؤنٹس میں محفوظ کیا گیا ہے۔

ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کی نوجوان اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ اس آبادی کے لیے انھیں بامقصد ملازمتیں پیدا کرنی ہوں گی اور ان منصوبوں پر پیسہ خرچ کرنا ہوگا جہاں انھیں ملازمتوں کے مواقع میسر آئیں۔

ولی عہد جنھیں اپنے 81 برس کے والد شاہ سلمان کی حمایت حاصل ہے، مختلف وجوہات کی بنا پر سعودی عرب کے چند امیر افراد کے معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔

وہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کاروبار کرنے کا پرانا انداز اب قابل قبول نہیں ہوگا۔ اگر سعودیوں کو 21 ویں صدی میں کامیاب قوم کے طور پر رہنا ہے تو ملک کی اصلاح کرنی ہوگی اور اسے جدید بنانا ہوگا۔

جس حکومت کی وہ قیادت کر رہے ہیں وہ چاہے گی کہ اس کے ہاتھ اندازاً آٹھ سو ارب ڈالرز کے ذاتی اثاثے لگ جائیں جو آف شور اکاؤنٹس یا دیگر ملکوں میں موجود ہیں۔

لیکن یہ سلسلہ کہاں ختم ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ ‘پہلا مرحلہ’ مکمل ہو چکا۔ بیان سے لگتا ہے کہ مزید گرفتاریاں ہونے والی ہیں۔

حکمراں السعود خاندان نے کبھی ظاہر نھیں کیا کہ قوم کے تیل کا کتنا پیسہ کن شہزادوں اور ان کے خاندان کو جاتا ہے جو کہ ہزاروں افراد ہیں۔

اطلاعات کے مطابق سنہ 2015 میں ولی عہد نے اپنے لیے روسی کاروباری شخصیت سے پرتعیش کشتی پچاس کروڑ یوروز میں خریدی تھی۔

ایسے میں کئی سعودی شہری امرا اور اشرافیہ کے خلاف صفائی کی مہم سے خوش ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ ان کی دولت کا کچھ حصہ آبادی میں دوبارہ تقسیم کیا جائے گا۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان تحقیقات کا دائرہ کار کیا ہے۔

یہ یقیناً اختیارات کا کھیل بھی ہے۔

32 برس کی عمر میں محمد بن سلمان نے ملک میں اختیارات کے اہم مناصب کو اپنے قابو میں کر لیا ہے۔

وہ ملک کے کم عمر ترین وزیر دفاع ہیں اور معاشی ترقی کا منصوبہ بھی چلا رہے ہیں۔ انھوں نے سعودی عرب کا انحصار تیل سے حاصل ہونے والی آمدن سے کم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

والد کے چہیتے فرزند ہونے کی حیثیت سے وہ تمام اختیارات کی حامل شاہی عدالت لگاتے ہیں۔ ان کے چند فائدہ مند اتحادی بھی ہیں۔

دورۂ واشنگٹن اور مئی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ریاض کے بعد اب ولی عہد اور وائٹ ہاوس کے درمیان ایک مضبوط تعلق بھی قائم ہو گیا ہے۔

قطر پر نقصان دہ پابندیاں لگانے اور ملک کو یمن میں بظاہر نہ جیت سکنے والی جنگ میں جھونک دینے کے باوجود وہ نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں۔

سعودی عرب کے پرانے گارڈز پر کڑا وقت آن پڑا ہے۔

ابتدا میں ہی اتنے کم عمر اور غیر آزمودہ شہزادے کو ولی عہد بنانے سے جانشینی کا رائج سلسلہ متاثر ہوا ہے۔

گذشتہ ہفتے سنیچر کو اسی مہم کے سلسلے میں شہزادہ مطعب بن عبداللہ کو نیشنل گارڈز کی سربراہی سے معزول کردیا گیا تھا۔

شہزادہ مطعب کبھی بھی ولی عہد کے لیے خاص خطرہ نہیں رہے لیکن نیشنل گارڈز کو سابق شاہ عبداللہ اور ان کے بعد ان 51 برس تک ان کے صاحبزادے چلاتے رہے۔

سرپرستی اور قبائلی اتحاد کے پورے ڈھانچے کو اب شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

ولی عہد کو معلوم ہے کہ ان کے جدید اصلاحاتی پروگرام کے دوران انھیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن وہ اپنے راستے میں آنے والے کسی بھی شخص یا چیز کو ہٹانے میں آہنی بےرحمی کا مظاہرہ کر رہےہیں۔

سعودی عرب میں اتنے اختیارات کا حامل کوئی شخص نہیں بچا جو ولی عہد کو اقتدار میں آنے سے روک سکے۔ ولی عہد محمد بن سلمان آسانی سے بادشاہ بن سکتے ہیں اور نصف صدی تک حکمرانی کر سکتے ہیں۔

شاہی خاندان میں چند افراد سمجھتےہیں کہ وہ بہت جلد اور بہت کچھ کر رہے ہیں لیکن شاید زیادہ فکرمندی کی بات یہ ہے کہ طویل عرصے کے دوران مذہبی قدامت پسند کیا ردِ عمل ظاہر کریں گے۔

آل سعود مسلمانوں کے دو مقدس مقامات کی سرزمین پر حکمرانی کو جائز قرار دینے کے لیے ان ہی علما پر انحصار کرتے ہیں۔ حکمران خود کو ‘خادمِ حرمین شریفین’ کہلواتے ہیں۔

اب تک ان علما نے اپنے اختیارات پر لگائی جانے والی قدغنوں کو قبول کیا ہے اور ستمبر میں خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی بھی ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے جس کی وہ ہمیشہ مخالفت کرتے تھے۔

لیکن وہ اب ان کا کیا ردِعمل ہوگا جب منصوبے کے مطابق سینیما اور دیگر مغربی طرز کی تفریحات متعارف کرائی جائیں گی۔

انتہائی بڑی اور آپس میں اچھی طرح منسلک سعودی عرب کی کاروباری برادری کا انسدادِ بد عنوانی مہم پر کیا ردِ عمل ہوگا؟ کیا سرمایہ ملک میں آئے گا یا باہر جائے گا؟

سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا ولی عہد ملک کے نوجوان طبقے کو ملازمتیں مہیا کرنے کا اپنا وعدہ پورا کر پائیں گے؟

یہ وقت طے کرے گا کہ سنیچر کی شب شروع ہونے والی انسداِ بدعنوانی کی مہم نے بہتر اور صاف ستھرے سعودی عرب کا راستہ ہموار کیا ہے یا پھر وہ بندھن کھلنا شروع ہو گیا ہے جس میں اب تک یہ پیچیدہ ملک بندھا ہوا تھا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp