میں اور احمد بشیر


\"zahidپچھلے کچھ دنوں میں جن کتابوں کا مطالعہ کیا ان میں میلان کنڈیرا کا ناول ’بقائے دوام‘ ایک ولندیزی ادیب فریدرک ولیم فان ایدن کا ناول ’موت کی ٹھنڈی جھیلیں‘ اور معروف صحافی، دانشور اور ناول نگار احمد بشیر کی زوجہ محمودہ احمد بشیر کی یادداشتوں پر مشتمل ایک مختصر مگر نہایت دلچسپ کتاب ”میں اور احمد بشیر، خون کی لکیر“ شامل ہے۔ پہلے دونوں ناولوں کے اردوتراجم نہایت جامع اور خوبصورت طور پر کیے گئے ہیں۔ اپنے اندر نئی دنیائیں اور ان نئی دنیاﺅں کے بہت سے مناظر لیے ہوئے ہیں۔ جبکہ محمودہ احمد بشیر کی یادداشتوں پر مشتمل یہ کتاب اپنی تحریر میں سادگی اور بے ساختگی کے باعث اس قدر کشش رکھتی ہے کہ بندہ پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ساتھ میں ”خون کی لکیر“ کے عنوان سے زمانہ تقسیم کے حوالے سے ایک اور تحریر بھی شامل ہے اس لیے اس کتاب کا ایک نام ”دو تحریریں“ بھی رکھا گیا ہے۔ کتاب کی اشاعت کا اہتمام ان کی بیٹی او ر نامور مصنفہ نیلم احمد بشیر نے کیا ہے۔
میرے خیال میں اردو میں اور بہت حد تک پاکستان کی مقامی زبانوں میں اس نوع کی کتابوں کی شدید قلت ہے۔
خاص طور پر احمد بشیرجیسا خاندان اور ان کے خاندان کے جیسی تاریخی اہمیت کی حامل شخصیات کے بارے میں ہمیشہ لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر محمودہ احمد بشیر کی تحریر میں حقائق اور سچائی جس رنگ میں سامنے آئی ہے ، مستقل اور متواتر لکھنے والے ادباءکے یہاں بھی نہیں آتی۔ انہوں نے نہایت اختصار کے ساتھ اپنے اور احمد بشیر کے خاندان ، احمد بشیر کے دوست احباب، ان کے صحافتی کیریئر، ادبی مصروفیات، ماقبل تقسیم کے ہندوستانی شہروں خاص طور پر لاہور کے بارے میں خوبصورتی کے ساتھ لکھا ہے۔ اپنے بچپن، لڑکپن، شادی ، احمد بشیر کے رویوں اور رجحانات، اپنی بیٹیوں کی پرورش اور ان کو زندگی کے انتخاب میں آزادی دینے جیسا رویہ، وہ صفات ہیں جو ہمیں بہت سے ترقی پسند نظریات اور دعویٰ رکھنے والوں کے یہاں بھی کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
میرے خیال میں ایسی کتابوں کو پڑھنا اپنی جگہ اہم ہے لیکن ایسی کتابوں کا لکھا جانا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments